چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب تم ذبح کرنے لگو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور ذبح کرتے وقت چھری کو تیز کر لیا کرو اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ۔‘‘[1]
جانور کو اچھی طرح ذبح کرنے میں درج ذیل چیزیں آتی ہیں:
٭ اسے سختی اور بے دردی سے نہ گِرایا جائے۔
٭ اسے گھسیٹ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہ کیا جائے۔
٭ جانور کے سامنے چھری کو تیز نہ کیا جائے۔
٭ اللہ کا نام لے کر جلدی جلدی ذبح کرے۔
٭ اس کا گلا اور رگیں کاٹنے میں دیر نہ کرے۔
٭ ذبح کرنے کے فوراً بعد اس کی کھال اتارنا شروع نہ کرے جب تڑپنا ختم ہو جائے تو اس کی کھال اتاری جائے۔
صورت مسؤلہ میں ذبح کرتے وقت جو صورت حال ذکر کی گئی ہے اس کی شرعاً اجازت نہیں بلکہ ایسا کرنا مذکورہ بالا حدیث کی صریح خلاف ورزی ہے۔ واللہ اعلم!
قربانی کی شرعی حیثیت
سوال: عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے، اہل اسلام اللہ عزوجل کے لیے جانور ذبح کریں گے، سوال یہ ہے کہ قربانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا قربانی کرنا واجب ہے؟ اگر کوئی صاحب حیثیت قربانی نہ کرے تو کیا گناہ گار ہو گا؟ اس کی وضاحت کریں۔
جواب: عید کے دنوں میں پالتو چوپائیوں میں سے کوئی جانور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔ یہ دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے۔ اس کی مشروعیت، کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل اسلام کے اجماع سے ثابت ہے۔ اس کی شرعی حیثیت یعنی اس کے واجب یا سنت ہونے کے متعلق اہل اسلام میں اختلاف ہے۔ جمہور علماء امام شافعی اور امام مالک رحمہم اللہ کا موقف ہے کہ قربانی سنت ہے جبکہ کچھ اہل علم اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ ان میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ برسرفہرست ہیں۔
ہمارے رحجان کے مطابق قربانی صاحب حیثیت کے لیے سنت موکدہ ہے۔ یعنی جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اس کے لیے قربانی کرنے کی بہت تاکید آئی ہے۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے قربانی کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ طیبہ میں رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال قربانی کرتے تھے۔ جن احادیث سے قربانی کا وجوب کشید کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں ہیں۔ اگر صحیح ہیں تو مدعا کے ثبوت کے لیے صریح نہیں ہیں۔ محدثین کرام نے تمام دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ یعنی ایک اہم اور مؤکد حکم ہے لیکن فرض یا واجب نہیں۔ تاہم
|