اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی نماز سے (پہلے) سو جائے یا وہ نماز پڑھنا بھول جائے تو وہ اسے یاد آنے پر پڑھ لے۔‘‘[1]
کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ﴾[2] ’’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘
بہرحال اگر کوئی نیند کی وجہ سے بروقت نماز نہ پڑھ سکے تو اسے چاہیے کہ جب بھی بیدار ہو تو اسے ادا کر لینا چاہیے، اسے دوسری نماز تک کے لیے مزید موخر نہ کرے۔ واللہ اعلم
جلسہ استراحت
سوال :جب نماز کی پہلی یا تیسری رکعت مکمل کر کے اٹھتے ہیں تو اطمینان و سکون سے بیٹھ کر اٹھنا چاہیے یا سجدہ کر کے اپنے قدموں کے بل سیدھا کھڑا ہونا چاہیے، کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا صراحت ہے، تفصیل سے اس کے متعلق وضاحت فرمادیں۔
جواب: پہلی اور تیسری رکعت کے آخری سجدہ سے فراغت سے جب اٹھا جاتا ہے تو آرام اور سکون سے بیٹھنے کو جلسہ استراحت کہتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان قائم کیا ہے:
’’باب من استوی قاعدًا فی وتر من صلاتہ ثم نہض‘‘
’’جو شخص اپنی نماز کی طاق رکعات میں سیدھا ہو کر بیٹھے پھر کھڑا ہو۔‘‘[3]
پھر اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا ایک مشاہدہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ جب آپ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک سیدھے ہو کر اچھی طرح بیٹھ نہ لیتے۔[4]
طاق رکعت سے مراد پہلی اور تیسری رکعت ہے، ان میں آخری سجدے سے فراغت کے بعد اچھی طرح سیدھے ہو کر بیٹھنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تھے۔
اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ اکبر کہتے ہوئے دوسرے سجدے سے اٹھتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے ہوئے اسے بچھاتے اور اس پر بیٹھ جاتے پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے۔‘‘[5]
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے بیٹھتے تھے، پھر زمین کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے
|