کھانے کے وقت تسمیہ
سوال: کھانا وغیرہ کھاتے وقت ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا چاہیے یا صرف ’’بسم اللہ‘‘ ہی کافی ہے؟ اس سلسلہ میں قرآن و حدیث میں کیا صراحت ہے، وضاحت سے لکھیں۔
جواب: ہمیں شریعت نے اس امر کا پابند کیا ہے کہ ہر کام کرتے وقت، اللہ کا نام لیا جائے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ اللہ کے نام کی برکت سے وہ کام بھی بابرکت ہو جاتا ہے۔
چنانچہ سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’کھانا کھانے کے آغاز میں اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔‘‘[1]
لیکن ہمارے رحجان کے مطابق پہلا معنی یعنی ’’بسم اللہ‘‘ کہنا ہی درست ہے کیوں کہ اس حدیث کو ایک دوسری روایت میں اس امر کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچے! جب تم کھانا کھاؤ تو بسم اللہ کہو۔‘‘[2]
علامہ البانی رحمہ اللہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’دوسری روایات میں جو اطلاق تھا، اس کی وضاحت اس روایت میں ہے،کھانے کے وقت اللہ کا نام لینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ صرف ’’بسم اللہ‘‘ کہا جائے، جس کی تائید حدیث نمبر ۱۹۶۵ سے بھی ہوتی ہے، اس بات کو اچھی طرح یاد کر لو کیوں کہ یہ ان لوگوں کے نزدیک انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو سنت کی تکریم کرتے ہیں اور اس پر کسی قسم کے اضافے کو جائز خیال نہیں کرتے۔‘‘[3]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کوئی کھانا کھائے تو بسم اللہ کہے۔ اگر ابتداء میں کہنا بھول جائے تو یاد آنے پر ’’بِسْمِ اللّٰه اَوَّلَہُ وَاٰخِرَہٗ‘‘ کہے۔[4]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تسمیہ کے طریقہ کے متعلق صریح ترین روایت یہی ہے۔[5]
ان احادیث و آثار کا تقاضا ہے کہ کھانے کے آغاز میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کی بجائے ’’بسم اللہ‘‘ کہنے پر اکتفاء کیا جائے۔ واللہ اعلم!
تجارت کے بغیر کسی کے گھر سے کھانا
سوال: سورت نساء کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت کے بغیر کسی کے گھر سے کھانا پینا باطل طریقہ سے کھانا ہے، اس کا کیا مطلب ہے، کیا تجارت کے علاوہ اگر کوئی دعوت کرتا ہے، تو اسے قبول نہیں کرنا چاہیے؟
جواب: سوال میں جس آیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ حسب ذیل ہے:
|