کر اسے گندگی سے آلودہ کر دیا تھا، آپ نے اس کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائی ہے۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا کہ ’’امت کے برے اعمال میں سے ایک یہ عمل ہے کہ کوئی انسان مسجد میں بلغم پڑی دیکھے اور اسے دفن نہ کرے۔‘‘[2]
بہرحال دین اسلام میں مساجد کی صفائی کو بہت اہمیت دی گئی ہے، لیکن اس سلسلہ میں ذکر کردہ جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، کہ مسجد کی صفائی کرنا حوروں کا حق مہر ہے، یہ خود ساختہ اور بناوٹی روایت ہے۔
امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس موضوع پر لکھی گئی ایک کتاب ’’الموضوعات‘‘ میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں عبد الواحد بن زید نامی ایک راوی متروک ہے۔ نیز اس میں بہت سے ایسے راوی ہیں جن کی سیرت و کردار کے متعلق کوئی علم نہیں یعنی وہ مجہول ہیں۔[3]
اس سلسلہ میں ایک دوسری روایت جسے ہیثمی رحمہ اللہ نے معجم طبرانی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ مساجد سے چیتھڑے اور تنگے وغیرہ اٹھا کر باہر پھینکنا حوروں کا حق مہر ہے۔[4]
علامہ موصوف خود ہی اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کی سند میں کئی ایک ایسے راوی ہیں جو مجہول اور لاپتہ ہیں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔[5]
بہرحال، مساجد کی صفائی اور نظافت کے متعلق متعدد صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے اس طرح کی بناوٹی اور خود ساختہ احادیث کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ واللہ اعلم
مسجد میں گم شدہ حیوانات کا اعلان کرنا
سوال: ہمارے گاؤں کے باسیوں کی یہ عادت ہے کہ جب ان میں سے کسی کی بکری یا گائے گم ہو جاتی ہے تو مسجد میں آ کر سپیکر میں اس کا اعلان کیا جاتا ہے، کیا مسجد میں اس طرح کے اعلانات جائز ہیں؟
جواب: مساجد، اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، جنہیں اس لیے تعمیر کیاجاتا ہے کہ ان میں اس کی عبادت اور اس کا ذکرکیا جائے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مساجد تو اللہ کے ذکر، نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن کے لیے بنائی جاتی ہیں۔‘‘[6]
اس لیے ان میں خرید و فروخت اور گم شدہ چیزوں کے متعلق اعلان کرنا منع ہے بلکہ اس کے متعلق بہت سخت وعید ہے۔
|