’’لاچار اور بے کس کی پکار کو جبکہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کر دیتا ہے۔‘‘
اس آیت کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہی اللہ ہے جسے شدائد کے وقت پکارا جاتا ہے اور مصائب کے وقت جس سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی دوسری ہستی ایسی نہیں جس کی طرف مصیبت کے وقت رجوع کیا جا سکے اور وہ کوئی تکلیف دور کر سکے۔ بہرحال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق مشکل کشا ہونے کا عقیدہ رکھنا کتاب وسنت کے خلاف ہے اور تاریخی حقائق بھی اس عقیدے کے خلاف ہیں۔ واللہ اعلم
عیسیٰ علیہ السلام کو غائبانہ سلام
سوال :میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سلام بھیجا ہے کہ افراد امت میں سے اگر کسی کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہو تو وہ انہیں میرا سلام کہہ دے، اب اس کا حوالہ یاد نہیں، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔
جواب: قرآن وحدیث کی صحیح نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اور قرب قیامت ان کا نزول ہوگا اور وہ اس عالم رنگ و بو میں عدل وانصاف قائم کریں گے اور ان کے دورِ میمون میں شریعت محمدی کا بول بالا ہوگا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ﴾[1]
’’اور یقیناً عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی علامت ہیں، اس لیے تم قیامت کے متعلق شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب آسمان سے ان کا نزول ہوگا جیسا کہ صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے، واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام بھیجا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں امید رکھتا ہوں کہ اگر میری عمر لمبی ہوئی تو میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے خود ملاقات کروں گا اور اگر پہلے فوت ہو جاؤں تو تم میں سے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کرے تو وہ میری طرف سے انہیں سلام کہہ دے۔‘‘[2]
یہ روایت دو طرح سے بیان کی گئی ہے: امام شعبہ سے جب محمد بن جعفر بیان کرتے ہیں جو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کرتے ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا روایت میں ہے۔ جب ان سے یزید بن ہارون بیان کرتے ہیں تو اسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوف نقل کرتے ہیں یعنی یہ ان کا قول ہے جیسا کہ اس سے اگلی روایت میں ہے۔ حافظ احمد شاکر نے اس کے مرفوع ہونے کو ترجیح دی ہے کیوں کہ یہ ثقہ راوی کا اضافہ ہے، نیز حضرت شعبہ اکثر مرفوع روایات کو موقوف بیان کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں بیان کردہ مفہوم امور غیب سے ہے، اس لیے ایسی روایت مرفوع ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سلام پہنچانے کا واقعہ مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح سے مروی ہے۔ جبکہ اس روایت کا پہلا حصہ جس میں عمر کے
|