کاروبار کرتے ہیں، کیا بازار میں اس طرح کی شرط لگانا جائز ہے؟کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو رزق پہنچانے کی ذمہ داری اپنے پاس رکھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا ﴾[1]
’’زمین پرکوئی بھی چلنے پھرنے والی مخلوق ایسی نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے نہ اٹھائی ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی مخلوق کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے، پھر اس وعدہ کو پورا کرنے کے لیے اس نے کئی ایک اسباب پیدا کیے ہیں۔ ان میں ایک تجارت کرنا ہے، اس تجارت کا ایک نظام مرتب کر کے بندوں کے حوالے کیا ہے۔ اس نظام کے تحت اشیاء صرف پوری دنیا میں گردش کرتی رہتی ہیں اور ہر علاقے میں پہنچتی ہیں، جو شخص بھی اس نظام میں داخل ہونا چاہتا ہے اور اس کا حصہ بننے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کی پابندی کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس نظام کے تحت اسے حلال و حرام کی تمیز کرنا ہوگی، لالچ، طمع، فراڈ اور دھوکہ دہی سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا۔ نیز لوگوں کے ساتھ اخلاص اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ اگرکوئی انسان یہ کہتا ہے کہ مخصوص چیز کی تجارت میں خود ہی کرنا چاہتا ہوں، کوئی دوسرا اس کی تجارت نہیں کر سکتا تو یہ ایک غلط پابندی ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ کیوں کہ اس کی بنیاد لالچ پر ہے بلکہ ایسا انسان شرعاً مجرم قرار پاتا ہے کیوں کہ یہ اللہ کے وضع کردہ قانون میں مداخلت کے مترادف ہے۔ شریعت میں ایسی شرائط کی کوئی حیثیت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے۔‘‘[2]
یہی وجہ ہے کہ شریعت نے منڈی کی طرف آنے والے راستوں پر بیٹھ کر اشیاء خریدنے پر پابندی عائد کی ہے۔ کیوں کہ ایسے کرنے سے تجارتی آزادی مجروح ہوتی ہے، لہٰذا مذکورہ پابندی شرعاً درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم!
پانی فروخت کرنا
سوال: ہم نے اپنی فصلوں کی آبپاشی کے لیے ایک ٹیوب ویل لگایا ہے، ضرورت سے زائد پانی فروخت کر دیا جاتا ہے، ہمیں کسی نے کہا ہے کہ پانی کی خرید و فروخت جائز نہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔
جواب: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
’’جس نے پانی کا صدقہ کرنا، ہبہ کرنا اور اس کے متعلق وصیت کرنے کو جائز خیال کیا۔‘‘[3]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے ذریعے ان حضرات کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ پانی میں ملکیت جاری نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے ہبہ کرنا، صدقہ کرنا یا اس کے متعلق وصیت کرنا جائز ہے۔ دراصل ان حضرات کے موقف کی بنیاد درج ذیل حدیث ہے:
’’تین چیزوں سے کسی کو نہ روکا جائے، پانی، گھاس اور آگ سے۔‘‘[4]
|