حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ لیکن سب سے افضل شہید وہ ہے جو میدان کارزار میں کام آئے، ان انواع شہادت میں کشتہ عشق کو شمار نہیں کیا گیا۔ بہرحال مذکورہ روایت بناوٹی، خود ساختہ اور بے اصل ہے، کسی بھی امام حدیث نے اس حدیث کے صحیح ہونے کی گواہی نہیں دی۔ کہا جاتا ہے کہ عشق اعلیٰ درجہ کی محبت کا نام ہے جس میں کسی اور کی شرکت کو گوارہ نہیں کیا جاتا بلکہ بعض بدباطن اسے ’’توحیدی‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ حالانکہ کوئی غیرت مند اس لفظ کو اپنی ماں، بہن، بیٹی کے ساتھ لگانا گوارا نہیں کرتا، ہر انسان کو اپنی ماں سے طبعی محبت ہوتی ہے لیکن کوئی اپنی ماں کا عاشق کہلانا پسند نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ ایسی گندی محبت سے ہمیں محفوظ رکھے۔آمین!
پھانسی کی سزا
سوال: قتل ناحق ایک سنگین جرم ہے لیکن ہمارے ہاں عدالتی نظام میں اس کی سزا پھانسی دینا ہے، کیا قرآن و حدیث کی روشنی میں قتل ناحق کی سزا پھانسی دینا صحیح ہے؟ قرون اولیٰ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے تو اس کی نشاندہی کریں۔
جواب: واقعی قتل ناحق بہت گھناؤنا جرم ہے اور اس جرم کا مرتکب قابل رحم نہیں۔ اگر کسی کا قاتل ہونا ثابت ہوجائے تو سزا کے طور پر قصاص واجب ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰى ﴾[1]
’’اے ایمان والو! قتل کے مقدمات میں تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔‘‘
قصاص کا مطلب ہے کہ جان کے بدلے جان لینا، لیکن ا س امت پر قصاص کے سلسلہ میں کچھ تخفیف کی گئی ہے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ١ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ﴾[2]
’’پھر قاتل کو اس کا بھائی قصاص معاف کر دے تو معروف طریقہ سے خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل بہتر طریقہ سے یہ رقم مقتول کے ورثاء کو ادا کر دے۔ یہ دیت کی ادائیگی تمہارے پروردگار کی طرف سے رخصت اور اس کی رحمت ہے۔‘‘
دراصل یہود پر اللہ تعالیٰ نے قصاص فرض کیا تھا اور ان میں عفو کا قانون نہیں تھا اور نصاریٰ کو صرف عفو کا حکم تھا، ان میں قصاص نہیں تھا۔ اس امت پر اللہ تعالیٰ نے آسانی اور مہربانی فرمائی کہ دونوں باتوں کی اجازت دی۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مقتول کے ورثاء کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے، خواہ وہ خون بہا لے لیں یاقصاص کے مطابق قتل کر دیں۔‘‘[3]
|