﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِيْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾[1]
’’ اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہو جائے تو اس پر ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا۔‘‘
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘[2]
لیکن جو شخص روزے دار کو دیکھے کہ وہ کھا پی رہا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اسے یاد دلائے کیوں کہ روزے کی حالت میں کھانا ایک برائی ہے جس سے روکنا ضروری ہے۔ اگرچہ حالت نسیان کی وجہ سے اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا لیکن دیکھنے والے کے لیے کوئی عذر مانع نہیں۔ لہٰذا وہ اسے یاد دلائے اور اسے منع کرے۔
حدیث میں ہے: ’’تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹائے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے کہے اور اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا سمجھے اور یہ کمزور ترین ایمان کی علامت ہے۔‘‘[3]
بہر حال بھول کر کھانے پینے سے روزہ متاثر نہیں ہوتا۔ البتہ دیکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے یاد دلائے اور کھانے پینے سے منع کرے۔ واللہ اعلم
کلی کرتے وقت پانی کا پیٹ میں چلے جانا
سوال: اگر کوئی روزہ دار وضو کرے اور کلی کرتے ہوئے غیر ارادی طور پر پانی پیٹ میں چلا جائے تو کیا اس سے روزہ خراب ہو جاتا ہے؟
جواب: جب روزہ دار کلی کرتا ہے اور غیر ارادی طور پر پانی پیٹ میں چلا جاتا ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیوں کہ اس نے اپنے مقصد اور ارادے سے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو روزے کی توڑ دینے والا ہو، ہاں قصداً ایساکرنے سے روزہ ختم ہو جائے گا۔ غیر اختیاری طور پر کوئی غیر شرعی کام سرزد ہونے پر مؤاخذہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَ لٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ﴾[4]
’’اور جو بات تم سے غلطی سے ہو گئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو دل کے ارادے سے کرو تو اس پر مؤاخذہ ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ غلطی پر اللہ کے ہاں مؤاخذہ نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں روزے دار نے کلی کی اور غیر ارادی طور پر پیٹ میں پانی چلا گیا تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں اور نہ ہی اس سے روزہ خراب ہوگا۔ واللہ اعلم
احتلام اور روزہ
سوال: میں نے روزہ رکھا ہوا تھا، دوپہر کے وقت مجھے نیند آگئی، اس دوران مجھے احتلام ہو گیا۔ کیا میرا روزہ برقرار ہے
|