طرح سانڈ کرائے پر لینے والے کی ملکیت نہیں بن جاتا، اسی طرح حلالہ کرنے والا عورت سے مستقل تعلق قائم نہیں کرتا بلکہ اپنے خیال میں خاوند کی ضرورت پوری کر کے عورت سے الگ ہو جاتا ہے۔
ہمارے رحجان کے مطابق ایک غیرت مند انسان اس رواجی حلالہ کے چکر میں نہیں پڑتا کیوں کہ یہ بے غیرتی اور بے حیائی کا کام ہے۔ واللہ اعلم!
حق مہر میں اسراف
سوال: ہمارے خاندان میں حق مہر بہت بڑھا چڑھا کر مقرر کیا جاتا ہے، جسے بعض اوقات آدمی ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ، ایسے حالات میں کیا کیا جائے، قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔
جواب: حق مہر بڑھا چڑھا کر مقرر کرنا اسراف ہے، خصوصاً جب انسان اس کے ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اس سلسلہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں اخراجات کم ہوں۔‘‘[1]
مہر کے سلسلہ میں ہمارا رحجان یہ ہے کہ وہ اس قدررکھا جائے جو آسانی سے ادا کر دیا جائے، جب مہر زیادہ ہو گا تو بہت سے مفاسد کا ذریعہ بنے گا اور نکاح میں رکاوٹ ہو گی تو معاشرے میں انار کی پھیلے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیویوں کے لیے حق مہر پانچ صد درہم سے زیادہ نہیں تھا۔
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے سلسلہ میں ایک صحابی سے فرمایا تھا: کہ ’’جاؤ اپنے گھر میں تلاش کرو، خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو، وہی بطور حق مہر دینے کے لیے لے آؤ۔‘‘[2]
واضح رہے کہ دین اسلام میں مہر بیوی کا خصوصی حق ہے، جس کی ادائیگی ضروری ہے۔ اس لیے استطاعت سے زیادہ حق مہر مقرر نہیں کرنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً﴾[3]
’’عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی ادا کرو۔‘‘
سوال میں ذکر کردہ حالات کے پیش نظر بیوی اپنے خاوند کو اپنے مہر سے کچھ معاف بھی کر سکتی ہے بشرطیکہ اس پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْٓ ا مَّرِيْٓ﴾[4]
’’اگر وہ خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے راضی خوشی استعمال کر لو۔‘‘
|