عبادت ہے، اور عبادات میں نیت شرط ہوتی ہے، جس وقت مقروض کو رقم دی گئی تھی اس وقت زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت نہ تھی۔ اس لیے اگر قرض کو زکوٰۃ کی مد سے معاف کیا جائے، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔بہتر ہے کہ اسے قرض معاف کر دیا جائے یا پھر اسے زکوٰۃ دے کر اپنے قرض کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کو زکوٰۃ دئیے بغیر خود ہی زکوٰۃ کی مد سے رقم رکھ لینا انتہائی محل نظر ہے۔ واللہ اعلم
صدقۃ الفطر کے لیے بیت المال
سوال: ہماری مسجد میں ایک بیت المال قائم کیا گیا ہے جس میں فطرانہ اور چرمہائے قربانی کو جمع کیا جاتا ہے، پھر اس سے مسجد کے امام اور خطیب کی تنخواہ دی جاتی ہے، اس قسم کے بیت المال کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: لغوی اعتبار سے ہر اس گھر کو بیت المال کہا جاتا ہے کہ جو کسی بھی قسم کے مال کی حفاظت کے لیے تیار کیا جائے، لیکن اصطلاحی طو ر پر اس سے مراد وہ ادارہ ہے جو اہل اسلام سے ان کے اجتماعی اموال وصول کر کے ان کے اجتماعی کاموں پر صرف کرنے کا ذمہ دار ہو، اسے اسلام کے ابتدائی دور میں بیت المال المسلمین یا بیت مال اللہ کہا جاتا تھا، آخر اس پر بیت المال کا اطلاق ہونے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس قسم کے اجتماعی مال کو فوراً خرچ کر دیا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صدقہ فطر وصول کرنے والے سرکاری کارندے ہوتے تھے جو عیدسے ایک دو دن پہلے صدقہ فطر وصول کر لیتے تھے۔
جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ سرکاری کارندوں کو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا فطرانہ عید سے ایک دو دن پہلے جمع کرو ادیتے تھے۔[1]
اسے سرکاری طور پر جمع کیا جاتااور اس کی حفاظت کے لیے باقاعدہ ڈیوٹی لگائی جاتی تھی۔
جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ اس کام پر مامور تھے۔[2]
اسے فوری طور پر حق داروں تک پہنچا دیا جاتا تھا، اسے اپنی مرضی سے صرف کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارے ہاں عام طور پر مندرجہ ذیل لوگ بیت المال قائم کرنے کا اہتمام کرتے ہیں پھر اسے ’’اپنا مال اپنوں‘‘ پر صرف کیاجاتا ہے۔
٭ بڑی فیکٹریوں کے مالکان یا وسیع کاروبار رکھنے والے مذہبی حضرات اپنے ہاں بیت المال قائم کر لیتے ہیں، اس میں زکوٰۃ، فطرانہ اور چرمہائے قربانی کی قیمت جمع کی جاتی ہے پھر فیکٹری میں قائم کردہ مسجد کے اخراجات اسی مد سے پورے کیے جاتے ہیں۔
٭ دینی ذہن رکھنے والے لوگ ایک اجتماعی بیت المال بنا لیتے ہیں، اس میں مقامی طور پر مال زکوٰۃ، عشر، فطرانہ، اور چرمہائے قربانی سے آمدہ رقم جمع کی جاتی ہے، پھر اس سے امام مسجد کی تنخواہ اور خطیب کا حق الخدمت ادا کیا جاتا ہے۔نیز
|