روزہ، اس قسم کی بیماری پر اثر انداز نہیں ہوتا اور نہ ہی اس قسم کی بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
٭ ایسی بیماری کہ روزہ رکھنے سے اس کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے یا شفایابی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ نیز روزہ رکھنا اس کے لیے مشقت کا باعث ہے تو اس قسم کے بیمار کو چاہیے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور جب تندرست ہو جائے تو چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا دے۔ قرآن کریم میں اسی قسم کی بیماری کا بیان ہے کہ دوران بیماری جتنے روزے رہ جائیں انہیں بعد میں رکھ لیا جائے۔
٭ ایسی بیماری جس میں روزہ رکھنا مشقت ہو اور انسان کی ہلاکت کا موجب ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾[1]
’’تم خود کو قتل نہ کرو۔‘‘
اس قسم کے بیمار لوگوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ عَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ﴾[2]
’’اور جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے وہ فدیہ کے طور پر ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔‘‘
وہ تندرست آدمی جسے روزہ رکھنے سے کسی بیماری کا اندیشہ ہو، اس کا فیصلہ کوئی تجربہ کار اور سمجھ دار ڈاکٹر کرے، ایسا آدمی اگر روزہ نہ رکھے تو ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے۔ وہ بھی فدیہ کے طور پر ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ﴾[3]
’’تم خود کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ انہیں تنگی اور مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود فیصلہ نہ کرے کہ روزے رکھنے سے میرے بیمار ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ماہر حکیم یا تجربہ کار ڈاکٹر رپورٹ دے یا خود آدمی کو بار بار اس بات کا تجربہ ہوا ہو کہ روزہ اس کے لیے باعث ضرر ہے۔ واللہ اعلم!
جنت کے دروازے کھلنے کامفہوم
سوال: حدیث میں ہے کہ جب ماہِ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اس حدیث کا کیا
|