سکتا ہے بلکہ اس کی نقل و حرکت اور تصویر بھی نیٹ پر آتی ہے۔ لڑکی والے بھی اسے پہچانتے ہیں کہ یہ وہی شخص ہے جس سے ہماری بچی کا نکاح ہو رہا ہے۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا جب ہجرت کر کے سرزمین حبشہ روانہ ہوئیں تو وہاں ان کا خاوند عبید اللہ بن جحش مرتد ہو گیا اور نصرانی بن گیا۔ اسی حالت میں اسے موت آ گئی۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی عدت ختم ہونے کے بعد شاہ حبشہ نجاشی رضی اللہ عنہ نے اسے پیغام نکاح بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ان کی رضامندی سے شاہ حبشہ رضی اللہ عنہ نے آپ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کروا دیا اور اپنی طرف سے انہیں حق مہر ادا کر دیا۔[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس نکاح میں موجود نہیں تھے، اس کے باوجود آپ کا نکاح سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے ہوا پھر انہیں شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ طیبہ روانہ کر دیا گیا، بہرحال نیٹ پر نکاح صحیح ہے بشرطیکہ اس میں نکاح کی شرائط پائی جائیں۔ واللہ اعلم!
سہاگ رات دورکعت پڑھنا
سوال: ہمارے ہاں دیندار طبقے میں مشہور ہے کہ سہاگ کی رات میاں بیوی دو رکعت ادا کریں، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں؟ کیا احادیث میں اس کی کوئی دلیل ملتی ہے؟ اس مسئلہ کو وضاحت سے بیان کریں۔
جواب: سہاگ کی رات میاں بیوی کا دو رکعت پڑھنا، اس کے متعلق تلاش بسیار کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کوئی صحیح حدیث ہمیں دستیاب نہیں ہو سکی، البتہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سہاگ رات بیوی کے پاس جاتے وقت دو رکعت پڑھی ہیں۔[2]
اس رات شرعی ہدایت یہ ہے کہ بیوی کی پیشانی پکڑ کر حسب ذیل دعا پڑھے: ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَھَا وَخَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَمِنْ شَرِّ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ)) ’’اے اللہ! میں اس کی خیر کا سوال کرتاہوں اور اس خیر کا بھی جس پر تو نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس شر سے بھی جس پر تو نے اسے پیدا کیا ہے۔‘‘[3]
یقیناً ہر فرد اور ہر ہر چیز میں خیر و برکت اس وقت ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس میں مقدر فرمائی ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ اس کا سوال کیا جائے اور کسی چیز یا شخص میں پایا جانے والا شر بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے اور اس سے تحفظ کا سوال بھی اللہ تعالیٰ ہی سے ہونا چاہیے۔ خاص طور پر بیوی کا معاملہ تو بہت ہی اہم ہے کیوں کہ وہ بھی زندگی کی گاڑی کا ایک پہیہ ہے،تقابل کے طور پر بیوی بھی اپنے شوہر کے متعلق اللہ تعالیٰ سے خیر وبرکت کی دعا اور اس کے شر سے پناہ مانگ سکتی ہے، اگرچہ حدیث میں اس کی صراحت نہیں۔ اگر خاوند کو اندیشہ ہو کہ ایسا کرنے سے بیوی اس سے نفرت کرے گی کہ اس میں شر ہے جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے تو مذکورہ دعا کو آہستہ پڑھ لے۔
|