مستثنیٰ ہے۔ اگر کسی نے پیداوار دینے والی مشینری برائے فروخت رکھی ہے تو اس کی مالیت پر زکوٰۃ ہو گی کیوں کہ اب وہ تجارتی مال بن چکی ہے لہٰذا اس سے زکوٰۃ دی جائے گی۔ لیکن جب اسے پیداوار کے لیے نصب کیا جائے گا تو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا، اسی طرح دیگر اشیاء کا حکم ہے۔ (واللہ اعلم)
حق مہر کی زکوٰۃ
سوال: میرے نکاح کے موقع پر دو لاکھ روپیہ حق مہر مقرر ہوا تھا، لیکن وہ مجھے ملا نہیں، البتہ میں اس سے مایوس نہیں ہوں، اس کی زکوٰۃ کے متعلق کیا حکم ہے؟ کیا میں نے اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہے یا میرے شوہر نے دینی ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب: حق مہر کی ادائیگی خاوند کے ذمے ضروری ہے، قرآن مجید میں ہے:
﴿وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً﴾[1]
’’عورتوں کا حق مہر انہیں خوشی سے ادا کرو۔‘‘
ہمارے ہاں حق مہر کی دو اقسام ہیں، ایک یہ ہے کہ اسے نکاح کے موقع پر ہی ادا کر دیا جائے، اسے مہر معجل کہا جاتا ہے۔ دوسری یہ ہے کہ اسے آئندہ ادا کرنا ہوتا ہے اس کو مہر موجل کہتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں عورت اس کی مالک ہوتی ہے، اگر وہ حق مہر زکوٰۃ کے نصاب کے برابر ہے تو سال کے بعد اس سے زکوٰۃ کی ادائیگی عورت کے ذمے ہے بشرطیکہ وہ اس کی ضروریات سے زائد ہو۔ عورت کے حق مہر میں زکوٰۃ کے متعلق درج ذیل اصول ہیں:
٭ اگر عورت نے حق مہر وصول کر لیا ہے اور وہ نصاب کو پہنچ چکا ہے تو جب سال گزر جائے گا تو عورت اس سے چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کرے گی۔
٭ اگر عورت نے حق مہر وصول نہیں کیا یعنی مہر موجل ہے تو اس کا حکم قرضے جیسا ہے۔ اگر اس کا خاوند صاحب حیثیت ہے اور اسے ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے تو بھی سال کے بعد اس سے زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی۔ اگر وہ تنگ دست ہے اور جلدی وصول کرنے کی امید نہیں ہے تو جب وہ حق مہر وصول کرے گی تو اسے ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی۔
٭ اگر اس نے حق مہر وصول کر لیا ہے اور اسے رخصتی سے پہلے طلاق مل گئی ہے تو اگر وہ نصاب کو پہنچ چکا ہے اور اس پر سال بھی گزر چکا ہے تو نصف حق مہر پر اسے زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی اور نصف مہر کی زکوٰۃ خاوند ادا کرے گا۔
صورت مسؤلہ میں حق مہر دو لاکھ روپیہ ہے۔ درج بالا تفصیل کے مطابق اس سے زکوٰۃ یعنی پانچ ہزار کی ادائیگی عورت کے ذمے ہے۔ واللہ اعلم
|