اگر اس نے دوسال کی عمر میں بچے کو پانچ مرتبہ دودھ پلا دیا ہے تو پھر وہ بچہ اس کا رضاعی بیٹا ہے اور اس کی بیٹیوں کا رضاعی بھائی ہے، ایسی صورت میں اس سے پردہ کرنا ضروری نہیں۔
چنانچہ سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: ’’جب ان کے رضاعی چچا جن کا نام افلح تھا آئے اور گھر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے اسے اجازت نہ دی اور اس سے پردہ کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے پردہ نہ کرو اس لیے کہ دودھ پلانے سے وہ حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ہوتی ہے۔‘‘[1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجنبی بچے کو اگر دودھ پلا دیا جائے تو اس سے پردہ ختم ہو جاتا ہے۔ بشرطیکہ دو سال کی عمر میں کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پلایا جائے۔ اگر ایسا نہیں تو لے پالک بچہ جب جوان ہو جائے تو گھر میں جو خواتین یا جوان لڑکیاں ہیں انہیں اس سے پردہ کرنا چاہیے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپنی کسی لڑکی کا اس سے نکاح کر دیا جائے، ایسے حالات میں بھی پردے کی پابندی ختم ہو جاتی ہے۔ بصورت دیگر لے پالک نوجوان ہونے کے بعد گھر میں رکھنا اور اس سے پردہ نہ کرنا کئی ایک خرابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم!
قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہنا
سوال: قسم اٹھاتے وقت اگر ان شاء اللہ کہہ دیا جائے تو اس کا کیا فائدہ ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لیا تو وہ حانث نہیں ہوگا۔‘‘[2]
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لیتا ہے پھر وہ اگر قسم کو پورا نہ کر سکے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں۔
مثلاً یوں کہے: ’’اللہ کی قسم! میں ان شاء اللہ یہ کام ضرور کروں گا، پھر وہ اگر کام نہ کر سکے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ اس لیے مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ ضرور کہنا چاہے تاکہ قسم کو پورا نہ کر سکنے کی صورت میں کفارہ ادا کرنے سے بچ جائے۔ نیز ایسا کرنے سے قسم کو پورا کرنے میں سہولت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم!
’’ان شاء اللہ‘‘ کو ’’انشاء اللہ‘‘ لکھنا
سوال: میں نے تحریری طور پر کسی کو اپنا وعدہ کرنے کا یقین دلایا اور آخر میں ’’انشاء اللہ‘‘ لکھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ
|