’’انشاء اللہ‘‘ نہیں بلکہ ’’ان شاء اللہ‘‘ لکھا کرو۔ کیوں کہ ان دونوں الفاظ کے الگ الگ معنی ہیں، اس کی وضاحت مطلوب ہے۔
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں الفاظ میں گرائمر کے اعتبار سے بہت فرق ہے اور انہیں الگ الگ معنی دینے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءً﴾[1]
’’ہم نے ہی ان حوروں کو پیدا کیا ہے۔‘‘
قرآن کریم میں اس لفظ کا ماضی اور مضارع بھی استعمال ہوا ہے، جس کا معنی ’’پیدا کرنا ہے۔‘‘ اب ’’انشاء اللہ‘‘ کی ترکیب کے حسب ذیل دو معنی ہیں:
٭ اگر مصدر کی اضافت فاعل کی طرف ہے تو اس کا معنی ’’اللہ تعالیٰ کا پیدا کرنا۔‘‘
٭ اگر اس مصدر کی نسبت مفعول کی طرف ہے تو اس کا معنی ’’اللہ کو پیدا کرنا‘‘ ہے جو انتہائی غلط ہے بلکہ سوء ادبی اور کفر ہے۔
لفظ ’’ان شاء اللہ‘‘ میں ’’ان‘‘ شرطیہ ہے اور ’’شاء‘‘ ماضی جس کا معنی چاہنا ہے، اس جملے کا معنی ’’اگر اللہ نے چاہا‘‘ یعنی کسی کام کو یہ لفظ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے حوالے کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ ترکیب استعمال ہوئی ہے جیسا کہ گائے ذبح کرنے کے سلسلہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا:
﴿وَاِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ﴾[2]
’’اگر اللہ نے چاہا تو ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے۔‘‘
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ’’ان شاء اللہ‘‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے وہاں ’’ان‘‘ کو الگ اور ’’شاء‘‘ کو الگ لکھا گیا ہے۔ یعنی ’’ان‘‘ کو ’’شاء‘‘ کے ساتھ ملا کر نہیں لکھا۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں جو ’’انشاء اللہ‘‘ اکٹھا لکھا جاتا ہے یہ غلط ہے اور الگ الگ لکھنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
نذر کا پورا کرنا
سوال: میں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا اور نذر مانی تھی کہ اگر میں اچھے نمبروں میں پاس ہو گئی تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھوں گی۔ اللہ کی مہربانی سے میں اچھے نمبر لے کر پاس ہو گئی ہوں، لیکن نذر کا پورا کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے، اس کا کیا حل ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جو نذر ماننے کے بعد اسے پورا کرتے ہیں۔ ارشاد
|