﴿وَ وَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰنًاحَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًا﴾[1]
’’ہم انے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف سے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف سے اسے جنم دیا۔‘‘
بہر حال انسان کو چاہیے کہ ماں کے حق خدمت کو فراموش نہ کرے اور خدمت گزاری کو اپنے لیے سعادت خیال کرے۔ واللہ اعلم!
قرض کی عدم ادائیگی
سوال: میرے والد گرامی نے جائز ضروریات کے لیے کسی سے کچھ قرض لیا تھا، کوشش کے باوجود اسے ادا نہ کر سکے اور اب وفات پا چکے ہیں، ان کی اتنی جائیداد بھی نہیں جسے فروخت کر کے اسے اتارا جائے اور میں بھی مالی طور پر بہت کمزور ہوں، اس سلسلہ میں بہت فکر مند رہتا ہوں، براہ کرم میری رہنمائی کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب: شریف انسان کے لیے قرض لے کر ضروریات کو پورا کرنا کوئی اچھا کام نہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات قرض کے بوجھ اور اس کی سختی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کی سنگینی کو بایں الفاظ میں بیان کیا ہے۔
آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا: ’’تم خود کشی نہ کرو۔‘‘
صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! ’’ہمارا خود کشی کرنا کیسے ہے؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’قرض کے ساتھ‘‘[3]
یعنی قرض لینا گویا خود کشی کرنا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ قرض سے دور رہا کرو کیوں کہ اس کی ابتداء غم اور انتہا تنگ دستی اور ناداری ہے۔[4]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسلاف کے حوالے سے لکھا ہے کہ قرض لینے سے عدم ادائیگی پر جو غم پریشانی آتی ہے وہ عقل کا کچھ حصہ بھی لے جاتی ہے جو پھر واپس نہیں آتا۔[5]
اس قدر سنگینی کے باوجود اگر کوئی ضرورت مند قرض لیتا ہے اور کوشش کے باوجود اسے ادا نہیں کر سکتا جب کہ اس کی نیت میں کوئی فتور نہیں تو شاید اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی نجات کا سبب پیدا کر دے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص ادائیگی کی نیت سے لوگوں کے مال (بطور قرض) لیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ادا کرنے کی توفیق دیتا ہے اور جو
|