ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘[1]
لیکن افسوس! ہمارے ہاں روزہ افطار کرانا بھی نمود و نمائش کا ذریعہ بن گیا ہے بلکہ اب تو روزہ افطار کرانے کے لیے باقاعدہ کارڈ شائع کیے جاتے ہیں۔ ایسی باتیں افطاری کی روح اور اس کے فلسفہ کے عین منافی ہیں۔ افطاری میں اس قدر تکلف کیا جاتا ہے کہ روزہ افطار کرتے وقت نظریں افطاری کے سامان کا جائزہ لینے میں لگی رہتی ہیں۔حالانکہ یہ وقت قبولیت دعا کا ہوتا ہے، بہر حال افطاری کا اہتمام کریں لیکن تکلفات سے اجتناب کرتے ہوئے شہرت اور نمود و نمائش سے دور رہیں۔
سحری کھانے کا صحیح وقت
سوال: ہمارے ہاں لوگ سحری کے متعلق افراط و تفریط کا شکار ہیں، کچھ لوگ تو آدھی رات کو ہی کھانا کھا کر سحری سے فارغ ہو جاتے ہیں جب کہ کچھ سحری کرتے ہی نہیں، اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اذان ہونے کے بعد بھی کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ آپ اس کی شرعی حیثیت بیان کریں۔
جواب: شروع میں مسلمان یہودیوں کی دیکھا دیکھی شام سے شام تک روزہ رکھتے تھے، پھر قرآنی ہدایت کے مطابق روزہ صبح سے شام تک ہو گیا۔
چنانچہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابتداء اسلام میں مسلمانوں سے کوئی شخص جب رات کو کھانا کھانے سے پہلے سو جاتا تو اس کے لیے کچھ بھی کھانا پینا جائز نہیں ہوتا تھا۔ نہ اس رات اور نہ اگلے دن حتی کہ سورج غروب ہو جاتا۔
پھر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾[2]
’’کھاؤ اور پیؤ حتی کہ تمہارے لیے صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے واضح ہو جائے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں واضح طور پر حکم دیا کہ :
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق سحری کھانا ہے۔‘‘[3]
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیدی طور پر فرمایا:
’’سحری کھاؤ، کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘[4]
اس برکت کے فوائد یہ ہیں کہ سحری کھانے سے روزہ نبھانا آسان ہو جاتا ہے اور جسمانی قوت برقرار رہتی ہے۔ اسی طرح سحری کھانے سے نیت بروقت ہوگی اور صبح بیدار رہنے کا موقع ملے گا۔ الغرض اس انداز سے سحری کرنے میں بہت سے دنیوی اور اُخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
|