حدیث میں بھی ایک ہی دن کا ذکر ہے، عیدالفطر اور عید الاضحیٰ دونوں عیدوں کے لیے یہی حکم ہے۔ واللہ اعلم!
سحری دیر سے کھانی چاہیے
سوال: ہمارے کچھ لوگ آدھی رات کو ہی سحری کھا کر سو جاتے ہیں، بعض اوقات فجر کی نماز بھی باجماعت ادا نہیں ہوتی، کیا ایسا کرنا کتاب و سنت سے ثابت ہے؟
جواب: ہم سحری کے متعلق بہت افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ کچھ حضرات سحری کھاتے ہی نہیں اور دیر سے اٹھنے کی وجہ سے کچھ کھائے پیئے بغیر ہی روزہ رکھ لیتے ہیں۔
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘[1]
نیز آپ نے فرمایا کہ ہمارے روزے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق کرنے والی چیز سحری کھانا ہے۔‘‘[2]
اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب سحری کھائے بغیر روزہ رکھتے ہیں لیکن ہمیں تاکید کی گئی ہے کہ ہم روزے کے لیے سحری کا اہتمام کریں، لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگ اس ڈر سے کہ رات کے آخری حصہ میں بیدار نہ ہو سکیں گے تو قبل از وقت سحری کھا کر سو جاتے ہیں، پھر کھانے کے نشہ میں خوب گہری نیند سو جاتے ہیں جس کی وجہ سے صبح کی نماز بروقت ادا نہیں ہو پاتی۔ ہماری شریعت میں سحری کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ صبح کاذب طلوع ہونے سے صبح صادق تک سحری کر لی جائے۔
جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ راوی نے عرض کیا: ان دونوں میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا؟ فرمایا: تقریباً پچاس آیات پڑھنے کے برابر۔‘‘[3]
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سحری اور نماز فجر کے درمیان فاصلہ پچاس آیات کے برابر ہوتا تھا۔ سحری کرنے والوں کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اذان فجر کے بعد کھانے پینے سے رک جانا چاہیے۔ ہاں اگر کھانے کے دوران اذان ہو جائے تو کھانے کو مکمل کر لیا جائے، لیکن اس جائز سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے کہ اذان کے بعد ہم چائے کی پیالی ہاتھ میں پکڑ لیں اور چسکیاں لے لے کر چائے پیتے رہیں، ایسا کرنا درست نہیں، افراط و تفریط سے اجتناب کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔ سحری دیر سے کی جائے لیکن اذان کے بعد کھانے پینے سے گریز کیا جائے۔ واللہ اعلم!
نفلی روزے کے لیے خاوند کی اجازت
سوال: میری بیوی کو نفلی روزے رکھنے کی عادت ہے، وہ اکثر سوموار، جمعرات اور ایام بیض کے روزے رکھتی ہے، کیا یہ حق ہے کہ میں اسے بکثرت نفلی روزے رکھنے سے منع کروں؟ اگر میں اسے اس اقدام سے باز رکھوں تو مجھے گناہ تو نہیں ہوگا؟
|