’’گویا بیماری تجھے نہیں مجھے لگی ہے، جس کی وجہ سے میری آنکھیں تمام رات بہتی رہتیں۔‘‘
تَخَافُ الرَّدَی نَفْسِیْ عَلَیْکَ وَاِنَّھَا
لَتُعْلَمُ اَنَّ الْمَوْتَ وَقْتٌ مُؤَجَّلٌ
’’میرا دل تیری ہلاکت سے ڈرتا رہتا ، حالانکہ اسے علم ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔‘‘
فَلَما أَبَلَغْتَ السِنَّ وَالْغَایَۃَ الَّتِیْ
اِلَیْھَا مَدَی مَا فِیْکَ کُنْتُ اُوَمَّلٌ
’’پھر جب اس عمر اور حد کو پہنچ گیا جس میں تجھ سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔‘‘
جعَلْتَ جَزِائِیْ غِلْظَۃً وَّفَظَاظَۃً
کَاَنَّکَ أَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلُ
’’تو نے ترش روئی اور سخت کلامی سے اس کا بدلہ دیا گویا تو ہی احسان اور انعام کرنے والا ہے۔‘‘
فَلَیْتَکَ اِذْ لَمْ تَرْعَ حَقَّ اَبُوَّتِیْ
فَعَلْتَ کَمَا الْجَارُ الْمُجَاوِرُ یَفْعَلُ
’’کاش! اگر تجھ سے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہو سکتا تھا تو کم از کم ایک شریف پڑوسی جیسا ہی سلوک کرتا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اشعار سن کر آبدیدہ ہو گئے اور بیٹے کا گریبان پکڑ کر فرمایا: ’’جا، تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔‘‘[1]
اشعار پر مشتمل اس واقعہ کے متعلق علامہ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’یہ حدیث اس قصے کے ساتھ منکر ہے کیوں کہ اس میں منکدر بن محمد راوی ضعیف ہے۔‘‘[2]
روایت کا پہلا حصہ جو ہم نے آغاز میں ابن ماجہ کے حوالے سے بیان کیا ہے، وہ صحیح سند سے ثابت ہے اور یہ الفاظ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
روایت کی صحت سے ہٹ کر ایک غمزدہ باپ کے یہ اشعار واقعی بڑے درد بھرے اور رقت آمیز ہیں۔ ہماری نسل نو اور روشن خیال نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ والدین کے متعلق اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔
سانپوں کے متعلق ہدایات
سوال: ہمارے گاؤں میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا کہ ایک نوجوان گھر میں نمودار ہونے والے سانپ کو مار رہا تھا کہ اچانک بے ہوش ہو گیا اور اس کی پشت اور چہرے پر سیاہ نشانات پڑ گئے،نیز سانپ بھی بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ لوگوں میں مشہور ہے کہ وہ سانپ ایک جن تھا اور اس کی وجہ سے نوجوان بے ہوش ہوا، سانپوں کے متعلق ہمیں شرعی ہدایات سے آگاہ کریں۔
|