قرار دیا جائے؟
بہرحال عیدگاہ میں اگر نوافل یا تحیۃ المسجد پڑھنا مشروع ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور اسے بیان کرتے۔ ہاں اگر کسی عذر کی بناء پر مسجد میں نماز عید پڑھی جائے تو وہاں تحیۃ المسجد پڑھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات میں ایسا کرنا محض تکلف ہے۔ ہاں ابن ماجہ کی حدیث میں گھر آکر نوافل پڑھنے کا ذکر ہے، ان کا نماز عید سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ مطلق نوافل ہیں۔ واللہ اعلم
خواتین کو عید گاہ لے جانا
سوال :عید کی آمد آمد ہے، ہمارے ہاں عیدگاہ میں عورتیں بھی شرکت کرتی ہیں اور اجتماعی طور پر عیدین کی نماز ادا کرتی ہیں لیکن ان کے ہاں اس قدر شور ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے والے دیگر حضرات کے لیے اذیت کا باعث بن جاتا ہے۔ کیا ایسے حالات میں ان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی؟
جواب: عید میں خوشی اور شان و شوکت کا اظہار مقصود ہے۔ اس لیے مردوں اور عورتوں حتیٰ کہ سمجھدار بچوں کو اس میں شرکت کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز نماز نہ پڑھنے والی عورتوں کو بھی حاضری کی تاکید کی گئی ہے تاکہ عید کے دیگر مقاصد پورے ہو سکیں۔
چنانچہ حفصہ بنت سیرین کا بیان ہے کہ ہم اپنی جوان لڑکیوں کو عید کے دن باہر نکلنے سے منع کرتی تھیں، چنانچہ ایک لڑکی قصر بنی خلف میں آکر مقیم ہوئی تو میں اس کے پاس گئی۔ اس نے بیان کیا کہ اس کا بہنوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بارہ جنگوں میں شریک ہوا تھا۔ اس کی بہن بھی کچھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھیں۔ ہمشیرہ نے بیان کیا کہ ہمارا کام مریضوں کی خبر گیری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’پردہ نشین دوشیزائیں اور نوجوان لڑکیاں عید کے لیے ضرور جائیں، جبکہ حائضہ عورتیں بھی شریک ہوں لیکن وہ نماز کی جگہ سے الگ تھلگ رہیں۔‘‘
ہمشیرہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر کسی عورت کے پاس بڑی چادر نہ ہو، ایسے حالات میں اگر وہ عید کے لیے باہر نہ جائے تو کوئی حرج ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
’’اس کی سہیلی اپنی چادر میں سے کچھ حصہ اسے پہنا دے تاہم انہیں چاہیے کہ وہ امور خیر اور اہل ایمان کی دعاؤں میں ضرور شمولیت کریں۔‘‘[1]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سہیلی سے چادر لینے کے دو مفہوم بیان کیے ہیں:
٭ اپنی سہیلی سے چادر عاریۃً لے لے اور عیدگاہ ضرور جائے۔ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اس کی بہن اسے عاریۃً اپنی چادر دے دے۔‘‘[2]
|