کر سکتا ہے تو چاہیے کہ اپنا قرض اتار کر حج کرے، اگر قرض وصول کرنے والوں کا مطالبہ ہے کہ اسے جلدی ادا کرو تو اسے قرض اتارنا چاہیے۔ اگر ان کی طرف سے مہلت ہے کہ جب میسر ہو قرض اتار دیا جائے تو ایسے حالات میں اسے حج کرنا چاہیے۔ کیوں کہ حج بھی فرض ہے، شاید بعد میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ وہ حج نہ کر سکے، لہٰذا اسے وقت غنیمت سمجھتے ہوئے حج بیت اللہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خزانہ غیب سے ضرور قرض کی ادائیگی کا بندوبست کر دے گا۔ واللہ اعلم
غلاف کعبہ کو چومنا
سوال: ہم نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ طواف کعبہ کے دوران وہ غلاف کعبہ کو چومتے ہیں اور اس پر ہاتھ پھیر کر اپنے چہرے پر ملتے ہیں، غلاف کعبہ کو چومنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کے متعلق رہنمائی کریں۔
جواب: غلاف کعبہ تیار کرنا اور اسے بیت اللہ کو پہنانا ایک بہترین عمل ہے۔ دور جاہلیت سے اس مستحسن روایت کو باقی رکھا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت اپنے قول و عمل سے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے، لیکن اس کے باوجود غلاف کعبہ کو چھونا اور اسے چومنا، اسے چھو کر ہاتھوں کو تبرک کے طور پر اپنے چہرے پر پھیرنا بدعت ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسا کرنا ثابت نہیں۔ یہ تو غلاف کعبہ ہے، ہمارا کعبہ شریف کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ اس کے جس حصے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوما ہے وہی مشروع ہے، اس کے علاوہ دوسرے کسی حصے کا استلام کرنا صحیح نہیں۔ جیسا کہ ابوشعثاء نے ایک مرتبہ کہا کہ بیت اللہ کے کسی حصے سے کون پرہیز کرتا ہے کیوں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی تمام ارکان کعبہ کا استلام کرتے تھے تو ان سے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ
’’ان دونوں کونوں یعنی رکن شامی اور رکن عراقی کو بوسہ نہیں دیا جاتا۔‘‘
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’بیت اللہ کی کوئی چیز متروک نہیں۔
سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما بھی تمام ارکان کعبہ کا استلام کرتے تھے۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جواب دیا:
’’تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے دیکھا ہے۔‘‘ اس پر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’آپ صحیح کہتے ہیں۔‘‘[2]
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ فرمایا اور سیدنا عبداللہ الزبیر رضی اللہ عنہما نے جو کچھ کیا ان کا ذاتی فہم ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ان تمام حضرات کے قول و عمل پر مقدم ہے۔
ان احادیث و آثار کی بناء پر غلاف کعبہ کو چھونا اور اسے چومنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ٹھوس عقیدہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: ’’اگر میں نے
|