نہیں۔ واللہ اعلم
ناک میں اُگے ہوئے بال
سوال :ناک میں اُگے ہوئے بالوں کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ کچھ لوگوں کے یہ بال بڑھ کر ناک سے باہر آجاتے ہیں جو اس کی شخصیت کے بدنما ہونے کا باعث بن جاتے ہیں، کیا ایسے بالوں کو صاف کیا جا سکتا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی کوئی چیز فضول یا بے کار نہیں ہوتی، اس میں ضرور کوئی حکمت پنہاں ہوتی ہے، اگرچہ ہم اپنی عقل کے ناقص ہونے کی وجہ سے اس تک رسائی نہ حاصل کر سکیں۔ البتہ بعض پیدا کردہ چیزوں کا کاٹنا یا زائل کرنا امور فطرت میں شمار کیا گیا ہے۔ مثلاً مونچھیں، زیر ناف اور بغلوں کے بال وغیرہ، ان کے متعلق شریعت کے واضح احکام ہیں۔ ناک کے بالوں کے متعلق شرعی طور پر کاٹنے یا انہیں صاف کر دینے کے متعلق کوئی حکم میری نظر سے نہیں گزرا، اس لیے انہیں اپنی حالت پر رہنے دیا جائے۔ قدیم طب اور جدید میڈیکل سائنس نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ یہ فلٹر کا کام دیتے ہیں، بیرونی گرد و غبار کو دماغ تک نہیں پہنچنے دیتے، اسی طرح اندرونی آلائش کے لیے بھی رکاوٹ کا باعث ہیں، اسے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ تاہم اگر یہ بال تکلیف کا باعث ہوں یا انسانی وقار اور خوبصورتی کے منافی ہوں تو انہیں کاٹا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ صورت مسؤلہ میں وضاحت کی گئی ہے اور ہمارا بھی مشاہدہ ہے کہ کچھ لوگ جب ہنستے ہیں یا بات کرتے ہیں تو ان کے ناک میں اگے ہوئے بال ان کی شخصیت کو داغدار کرتے ہیں۔ شاید انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا ہوگا اور نہ ہی انہیں اس بات سے کوئی آگاہ کرنے والا ہوتا ہے، ایسے حالات میں اگر انہیں کاٹ دیا جائے تو امید ہے کہ کوئی حرج نہیں ہوگا کیوں کہ تکلیف دہ چیز کا ازالہ ضروری ہے۔ اسی طرح جو چیز انسانی وقار یا اس کی خوبصورتی میں حائل ہو اسے بھی دور کرنے میں چنداں حرج نہیں، البتہ کاٹتے وقت دو چیزوں کا خیال رکھا جائے:
۱: حالت احرام میں انہیں کاٹنے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ اس حالت میں جسم کا کوئی بھی بال کاٹنا منع ہے۔
۲: یکم ذوالحجہ سے قربانی کرنے تک بھی ایسے بالوں سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے کیوں کہ احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ واللہ اعلم
اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا
سوال :ہمارے خطیب نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ وضو کرنے کے بعد اگر اونٹ کا گوشت کھا لیا جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، نماز پڑھنے کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا، کیا یہ مسئلہ صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو اس میں کیا حکمت ہے؟ وضاحت کر دیں۔
جواب: شرعی احکام کی یہی علت اور حکمت کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول نے انہیں بجا لانے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
|