بھی اسی قبیل سے ہے۔
ہمارے رحجان کے مطابق میت کے عزیز جب پھول کی پتیاں بکھیرتے ہیں، تو اس سے مقصود محض اپنے جذبات کا اظہار ہے کہ ہمیں میت سے بہت محبت ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو انہیں وہ کام کرنے چاہیے جن سے میت کو فائدہ پہنچتا ہو، محض جذبات کا اظہار کافی نہیں۔ ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح مال کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
جیسا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔[1]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر خیمہ نصب دیکھا تو وہاں مامور غلام سے کہا کہ اسے اکھاڑ دو، میت کو اس کے اعمال کا سایہ ہوگا۔[2]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات سے آگاہ تھے کہ مرنے کے بعد اس طرح کے ظاہری اعمال میت کو کوئی فائدہ نہیں دیتے، انسان کو اپنا ذاتی کردار ہی فائدہ دے سکتا ہے۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کاموں کی نشاندہی ضرور کی ہے جو مرنے کے بعد میت کے لیے سود مند ہو سکتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
٭ میت کے لیے دعا کرنا جبکہ اس میں شرائط قبولیت موجود ہوں۔
٭ صالح اولاد جو بھی نیک اعمال سرانجام دے۔
٭ صدقہ جاریہ اور اس کے اچھے اثرات۔
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین اعمال کے سوا اس کے تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، وہ تین اعمال یہ ہیں: ۱۔ صدقہ جاریہ، ۲۔ ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں، ۳۔ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔‘‘ [3]
اس لیے اہل میت کو چاہیے کہ وہ قبرستان میں پھولوں کی پتیاں اور دال وغیرہ ڈالنے کے بجائے کسی غریب کو سہارا دیں، اس کی ضروریات کا بندوبست کریں اور میت کے نام سے صدقہ و خیرات کریں، فضول کاموں میں اپنا مال ضائع نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عمل کی قدروقیمت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مہر تصدیق ثبت ہو۔ (واللہ اعلم)
میت کو ایک ملک سے دوسرے ملک لانا
سوال: میرے بھائی کی وفات سعودیہ میں ہوئی تھی، ہم نے اسے پاکستان لا کر دفن کر دیا، اب کچھ اہل علم کی طرف سے کہا جا رہا ہے، کہ ہم نے یہ ناجائز کیا ہے۔ قرآن و سنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ آپ شریعت کی رو سے اس مسئلہ کی وضاحت کردیں۔
|