سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ جب عورت کا حیض موجود ہو گا تو وہ نماز نہیں پڑھے گی خواہ وہ حیض سابقہ عادت کے مطابق یا اس سے زیادہ ہو یا اس سے کم ہو۔ بہرحال جب وہ پاک ہو گی تب نماز روزے کا اہتمام کرے گی۔ واللہ اعلم!
وضو کرتے وقت صرف بسم اللہ پڑھنا
سوال :جب ہم نماز کے لیے وضوء کرتے ہیں تو آغاز میں بسم اللہ پڑھنا چاہیے یا بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھنی چاہیے، اس کے متعلق کتاب و سنت میں کیا وارد ہوا ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر کام کا آغاز بسم اللہ سے کرنا چاہے، اسی طرح وضو کا آغاز بھی اللہ عزوجل کے نام سے کرنا ضروری ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جس نے وضو کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا اس کا وضو نہیں ہے۔‘‘[1]
ہمارے نزیک اللہ عزوجل کے نام سے مراد بسم اللہ کہنا ہے، جب کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک مرتبہ وضو کا پانی تلاش کیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ پانی ہے؟‘‘
پانی لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پانی میں رکھ دیا اور فرمایا: ’’بسم اللہ پڑھ کر وضو کرو۔‘‘[2]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرتے وقت بسم اللہ کہنا چاہیے۔
چنانچہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ وضو سے پہلے مسئلہ تسمیہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جب یہ ثابت ہوا کہ تسمیہ کا طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ کہا جائے، اس کی جگہ دوسرے الفاظ کافی نہیں ہوں گے۔‘‘[3]
جو حضرات اس کے ساتھ ’’الرحمن الرحیم‘‘ کے اضافے کو جائز خیال کرتے ہیں یا اسے مستحب کہتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ اس کے جواز یا استحباب پر کتاب وسنت کی کوئی دلیل پیش کریں، بعض روایات میں ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’جب تم وضوء کرو تو بسم اللہ والحمد للہ کہو۔‘‘[4]
اگرچہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے لیکن یہ حدیث منکر ہے کیوں کہ اس کی سند میں ابراہیم بن محمد بن ثابت نامی ایک راوی ہے جسے علامہ ذہبی نے منکر روایات بیان کرنے والا لکھا ہے۔[5] اس لیے بسم اللہ کے ساتھ الحمد للہ کا اضافہ بھی درست نہیں۔ واللہ اعلم!
٭٭٭
|