﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾[1]
’’اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
امید ہے کہ ایسے حالات میں اگر کسی مسلمان کو عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا تو اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ کیوں کہ مسلمان کی اخروی نجات کا دارومدار اس کا عقیدہ اور اخلاق و کردار ہے، اس کے مقام تدفین کے بجائے اس کا نیک عمل اسے نفع پہنچائے گا۔
واضح رہے کہ اگر میت کے ورثاء اسے اپنے ملک لے جا سکتے ہیں تو لے جائیں، بصورت دیگر اسے وہیں دفن کر دیا جائے کیوں کہ شریعت کا بھی مسئلہ ہے کہ آدمی جہاں فوت ہو اسے وہیں دفن کر دیا جائے، وہاں اگر اس ملک میں کہیں بھی مسلمانوں کا قبرستان ہے تو انہیں وہاں دفن کرنا چاہیے، دور ہونے کی بناء پر اسے عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کر دینا درست نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسے حالات سے دوچار نہ کرے کہ وہ اپنے مردوں کو عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ آمین!
مدفون آدمی کا دوسروں کو پہچاننا
سوال: جب آدمی کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو کیا قبر کی زیارت کرنے والوں کو وہ پہچان لیتا ہے کہ فلاں شخص میری قبر پر کھڑا دعا کر رہا ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب: مرنے کے بعد قبر میں دفن ہونے سے لے کر قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے تک عالم برزخ ہے، اس کے متعلق اپنی طرف سے کوئی بات کہنا انتہائی خطرناک اقدام ہے۔عالم برزخ کے متعلق جو کچھ کتاب وسنت میں ہے، اسی پر اکتفاء کیا جائے اور اس پر ایمان لایا جائے، کتاب و سنت میں اس کے متعلق کوئی صراحت نہیں۔
کچھ لوگوں نے ایسی احادیث بنا رکھی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کسی واقف شخص کو جب وہ قبر پر آتا ہے تو پہچان لیتی ہے، لیکن ایسی احادیث کی شرعی طور پر کوئی حیثیت نہیں۔
قرآن و حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ میت کو کوئی احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی روح قبر میں موجود ہوتی ہے۔
﴿وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ﴾[2]
’’اب مرنے والوں کے پیچھے ایک پردہ حائل ہے جو دوبارہ زندہ ہونے تک پڑا رہے گا۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ فوت ہونے والوں اور اہل دنیا کے درمیان ایک مضبوط آڑ اور پردہ حائل ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہے گا۔ اگر مرنے والا، مرنے کے بعد بھی قبر پر آنے والوں کو دیکھتا ہے اور انہیں پہچانتا ہے یا ان کی آمد محسوس کرتا
|