آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ایک تہائی مال کی وصیت کر دو، لیکن تہائی حصہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ [1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کل جائیداد سے ایک تہائی کی وصیت کی جا سکتی ہے۔
٭ کسی ایسے شرعی وارث کے حق میں وصیت نہ کی جائے جس نے ترکہ سے حصہ لینا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔‘‘[2]
اس حدیث کی بنا پر شرعی وارث کے لیے وصیت کالعدم ہو گی۔
٭ کسی حرام اور ناجائز کام کی وصیت نہ ہو، مثلاً شراب خانہ بنانا یا قبر کو پختہ کرنے کی وصیت کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’اطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے، نافرمانی کے معاملات میں کسی کی بات کو نہیں مانا جائے گا۔‘‘[3]
اس حدیث سے پیش نظر ناجائز کام کے متعلق وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
صورت مسؤلہ میں مرحومہ نے نصف ترکہ کی وصیت ہے، جو ناجائز ہے، اس پر عمل نہیں ہو گا بلکہ اس کا تہائی یعنی ۴۵ گرام نواسی کو دیا جائے گا، باقی ۹۰ گرام اس طرح اولاد میں تقسیم کیے جائیں کہ لڑکے کو لڑکی سے دوگنا حصہ ملے۔ چونکہ مرحومہ کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں موجود ہیں، اس لیے ۱۸ گرام فی لڑکا اور ۹ گرام فی لڑکی تقسیم کردیا جائے۔ واللہ اعلم!
زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا
سوال: ایک شخص نے اپنی زندگی میں آدھی جائیداد اپنے اکلوتے بیٹے کے نام کر دی جبکہ دوسری آدھی اپنے دو پوتوں کے نام بیع کی صورت میں کی۔ جس کا انتقال بعوض -/500 روپے فرضی خریداری ہوا، اس کے بعد وہ تین سال تک زندہ رہا، کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں خود مختار بنا کر بھیجا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اللہ عزوجل کی نعمتوں کو جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ مال و جائیداد بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، اس میں بھی تصرف کرنے کا اسے پورا پورا حق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاا رشاد گرامی ہے:
’’ہر مال دار اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔‘‘[4]
اس تصرف کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی ناجائز اور حرام کام کے لیے نہ ہو اور نہ ہی اس کے ذریعے کسی جائز وارث کو محروم کرنا مقصود ہو۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون وراثت کو پامال کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ اس وضاحت
|