روزہ و اعتکاف
میت کی طرف سے روزے رکھنا
سوال: میری والدہ بیمار تھیں، وہ رمضان المبارک کے روزے نہ رکھ سکی تھیں، اب وہ وفات پا چکی ہیں، کیا ہمیں ان کے قضاء شدہ روزے رکھنے کی شرعاً اجازت ہے یا ہم ان کی طرف سے فدیہ ادا کریں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: اگر کوئی شخص وفات پا جائے اور اس کے ذمے رمضان کے روزے ہوں تو مرنے والے کی طرف سے قضا شدہ روزوں کا فدیہ دیا جائے، ورثاء کو روزے رکھنے کی اجازت نہیں۔
جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اس سلسلہ میں فتویٰ حسب ذیل ہے:
’’کوئی شخص دوسرے کی طرف سے نماز نہ پڑھے اور نہ ہی کوئی شخص دوسرے کی طرف سے روزے رکھے بلکہ ہر دن روزے کے بدلے میں اس کی طرف سے گندم کا ایک مد کھانا کھلائے۔‘‘[1]
اس سلسلہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔‘‘[2]
اس حدیث میں ’’روزوں‘‘ سے مراد رمضان کے روزے نہیں بلکہ نذر کے روزے ہیں کیوں کہ دوسری احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے سمندری سفر کیا اور ایک مہینہ روزے رکھنے کی نذر مانی، پھر وہ روزے رکھنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی تو اس کی بہن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’وہ اپنی بہن کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘[3]
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور عرض کیا، یا رسول اللہ! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس پر نذر کے روزے باقی ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں
|