وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب: مستقبل سے متعلقہ واقعات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا﴾[1]
’’کسی انسان کو پتہ نہیں کہ وہ کل کیا کرے گا۔‘‘
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ آنے والے وقت سے متعلقہ تمام معلومات اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھی ہیں، کوئی بھی انسان یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ اس کا کل کس طرح گزرے گا یا پرسوں اس پر کیا بیتے گی۔ لیکن سیدھے سادے لوگوں کو مزید بے وقوف بنانے کے لیے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دیے جاتے ہیں کہ آپ کا کل کیسے گزرے گا اور آپ جو چاہیں پوچھیں؟ اسی طرح فٹ پاتھ پر بیٹھے بزعم خویش ’’پروفیسر‘‘ طوطے کے ذریعے مستقبل کی خبریں دیتے ہیں، یہ سب جھوٹ اور فراڈ ہے اور اس کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس جا کر اپنی قسمت آزمائی کرنا اور ان کی باتوں پر عمل پیرا ہونا اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر نافرمانی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جو شخص کسی نجومی یا قسمت بتانے والے کی بات پر یقین کرتا ہے وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی تعلیمات کا انکار کرتا ہے۔‘‘ [2]
ایک دوسری روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص کسی کاہن، نجومی یا قسمت بتانے والے کے پاس آیا پھر اس کی بات پر یقین کیا تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔‘‘[3]
اس قسم کی جادوگری کا پیشہ اختیار کرنے والے خود بدحالی کا شکار ہوتے ہیں، لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکالنے کے لیے اشتہار بازی کرتے ہیں۔ ان کے پاس جا کر اپنی قسمت معلوم کرنا اپنے ایمان سے محروم ہونا ہے۔ لہٰذا ان کے پاس نہیں جانا چاہیے اور نہ ہی ان کی باتوں پر یقین کرنا چاہیے۔
پاؤں پکڑنے کے لیے جھکنا
سوال :ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ جب کوئی بڑا ناراض ہوتا ہے تو اس کے پاؤں پکڑ کر اسے راضی کیا جاتا ہے اور پاؤں پکڑنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ صرف اللہ عزوجل کے آگے جھکنا چاہیے؟ وضاحت فرمادیں۔
|