بالکل نا امید ہو وہ ایسا کر سکتی ہے جیسا کہ ازواج مطہرات نے کیا تھا، لیکن اسے نوجوان عورتوں کے لیے بطور فیشن ایسا کرنے کی اجازت دینا مغربی تہذیب کی آبیاری کرنا ہے۔‘‘
بہر حال ہمارے خطباء حضرات کو اس کی قباحت اور شناعت کو مؤثر انداز میں بیان کرنا چاہیے تاکہ ہماری خواتین اس قسم کے فیشن کا شکار نہ ہوں جس کی بنیاد کافر عورتوں کی نقالی اور مغربی تہذیب ہے۔ واللہ اعلم!
عورت کا لباس
سوال: آج کل لڑکیاں جو لباس زیب تن کرتی ہیں وہ دائیں بائیں طرف سے کھلا ہوتا ہے اور پنڈلی کا کچھ حصہ بھی ننگا ہوتا ہے، ایسے لباس کے متعلق کتاب و سنت کی کیا ہدایات ہیں؟ وضاحت سے لکھیں۔
جواب :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عورتیں ایسی لمبی قمیص پہنتی تھیں جو پاؤں کی طرف سے ٹخنوں تک اور ہاتھوں کی طرف سے ہتھیلیوں تک ہوتی تھیں، عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ کامل شرم و حیاء کا مظاہرہ کرے اور ایسا لباس زیب تن کرے جو اس کے تن بدن کو پوری طرح ڈھانپ لے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ اگر عورت کے پاؤں مردوں کے لباس سے ایک بالشت زیادہ لٹکانے پر ننگے رہتے ہوں تو عورتیں اپنا لباس ایک ہاتھ مزید لٹکا لیا کریں، اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔[1]
اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو پاؤں کی پشت سمیت پورے جسم کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے، خاص طور پر جب کھلے مقامات میں نکلے تو پردے کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔ اسے چاہیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کا مصداق نہ بنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اہل جہنم کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دموں جیسے کوڑے ہوں گے، جن کے ساتھ وہ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسرے ایسی عورتیں جنہوں نے لباس تو پہنا ہوگا اس کے باوجود وہ ننگی ہوں گی۔ مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی، ان کے سربختی اونٹوں کی کوہانوں جیسے ہوں گے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پا سکیں گی! حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور دراز کی مسافت سے آتی ہوگی۔‘‘[2]
ان احادیث کی بناء پر عورتوں کو ایسا لباس پہننا چاہیے جس سے ان کی پردہ داری مجروح نہ ہو۔ واللہ اعلم!
سر کو کھلا رکھنے کا قانون
سوال: میں ایک ایسے ملک میں رہائش پذیر ہوں جہاں عورتوں کو پردہ کرنے اور خاص طور پر سر ڈھانپنے سے روک دیا گیا ہے، عدم تعمیل کی صورت میں سکول سے اخراج اور ملازمت سے برخاستگی ہو سکتی ہے، ایسے حالات میں ہمیں کیا حکم ہے؟
|