پرورش کرنا چاہتی ہوں، آج کل ایسی ادویات دستیاب ہیں جن کے استعمال سے دودھ اتر آتا ہے، کیا ایسا دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے؟
جواب: کسی دوسرے کا بیٹا اپنی گود میں لینے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ایسا کرنے سے کوئی حقیقی ماں یا باپ بن سکتا ہے۔ اسلام نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ جس عورت نے اسے گود لیا ہے وہ اسے دودھ پلا دے۔ ایسا کرنے سے وہ اس کی رضاعی ماں اور اس کا خاوند اور اس کا رضاعی باپ بن جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آئندہ پردے وغیرہ کے احکامات میں کچھ نرمی آ جاتی ہے لیکن رضاعت کے لیے دو شرطوں کا ہونا ضروری ہے جو حسب ذیل ہیں:
٭ بچے کو دودھ مدت رضاعت کے اندر اندر پلایا جائے اور مدت رضاعت دو سال ہے، اس کے بعد دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہ ہو گی۔
٭ دودھ بھی کم از کم پانچ دفعہ پلایا جائے، ایک یا دو دفعہ دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہو گی، ایک دفعہ پلانے سے مراد یہ ہے کہ بچہ، عورت کی چھاتی کو منہ میں لے اور سیر ہو کر اپنی مرضی سے چھوڑ دے اس طرح کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پلایا جائے۔
صورت مسؤلہ میں عورت کا اپنا دودھ نہیں کیوں کہ وہ عرصہ بیس سال سے لا ولد ہے اور ادویات کے ذریعے اترنے والے دودھ سے کام چلانا چاہتی ہے، اس سلسلہ میں درج ذیل حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے:
٭ زمانہ قدیم میں بھی کچھ درختوں کا چھلکا اور جڑیں ایسی تھیں جن کو چبانے سے عورتوں کو دودھ اتر آتا تھا۔ چنانچہ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ ادویات تیار کر لی گئی ہیں، جن کے استعمال سے دودھ اتر آتا ہے، اگر کوئی لا ولد عورت اس قسم کی ادویات استعمال کرتی ہے اور اسے اتنا دودھ اتر آتا ہے کہ جس سے بچہ سیر ہو جائے اور اس طرح وہ پانچ مرتبہ غیر فطرتی دودھ پی لے تو اس سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ بشرطیکہ بچہ دو سال کی عمر کے اندر اندر دودھ پیئے۔ لیکن اس قسم کے دودھ پینے سے عورت کا خاوند، اس بچے کا رضاعی باپ نہیں بنے گا کیوں کہ اس غیر فطرتی دودھ میں اس کے خاوند کا کوئی حصہ نہیں۔ ہاں حمل کے بعد جو فطرتی دودھ پیدا ہوتا ہے، اگر ایسا دودھ کوئی بچہ نوش کرتا ہے تو خاوند اس بچے کا رضاعی باپ بن جاتا ہے۔ [1]
منگیتر سے تصویر طلب کرنا
سوال: میں کالج کی طالبہ ہوں، میری یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالب علم سے منگنی ہو گئی ہے۔ وہ مجھے مجبور کرتا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی تصاویر روانہ کروں، کیا شریعت میں تصاویر کے تبادلے کی اجازت ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب: شریعت میں نکاح سے پہلے منگنی کرنا مشروع ہے، لیکن یہ پیغام نکاح ہے، نکاح نہیں۔ اپنی منگیتر کو نکاح سے قبل ایک نظر دیکھ لینے میں چنداں قباحت نہیں، لیکن اس کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں۔ ایک نظر دیکھنے سے مراد، تنہائی میں ملاقاتیں کرنا، سیر و تفریح کے لیے جانا، خریداری کرنا، کسی پارک میں جا کر چائے نوش کرنا اور فون پر گھنٹوں گپ شپ کرنانہیں ہے۔
|