شرعی حق مہر
سوال: مجلس نکاح میں شرعی حق مہر کا ذکر ہوتا ہے، ا س سے کیا مراد ہے، شریعت میں کم از کم حق مہر کی کیا مقدار ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب: شریعت مطہرہ میں حق مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں جسے شرعی مہر قرار دیا جا سکے۔ ہر وہ چیز جس کا مرد مالک ہے اسے حق مہر کے طور پر مقرر کرنا جائز ہے، خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ۔ البتہ اگر حق مہر کم ہو گا تو نکاح میں برکت اور میاں بیوی کے درمیان محبت کا باعث ہو گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں مشقت اور خرچ کم ہو۔‘‘[1]
ایک اور روایت بایں الفاظ ہے: ’’بہترین نکاح وہی ہے جو زیادہ آسانی والا ہے۔‘‘[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تنگ دست صحابی کو لوہے کی انگوٹھی لانے کے متعلق فرمایا تھا تاکہ اسے عورت کا حق مہر مقرر کیا جا سکے۔[3]
پھر آپ نے اس کا نکاح قرآن کی چند سورتوں کے عوض کر دیا جو اسے زبانی یاد تھیں تاکہ وہ اپنے ہونے والی بیوی کو پڑھا دے۔
مہر زیادہ ہونے کی صورت میں بہت زیادہ مفاسد کا اندیشہ ہے۔ سب سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ معاشرہ میں جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی معطل ہو کر رہ جائے گی کیوں کہ ہر آدمی میں زیادہ حق مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا حق مہر پانچ صد درہم تھا، جیسا کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق مہر کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ بارہ اوقیہ اورنش تھا، میں نے عرض کیا کہ نش کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’آدھا اوقیہ۔‘‘[4]
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ اپنے خطبہ میں فرمایا: ’’خبردار! عورتوں کے بھاری بھاری حق مہر نہ باندھا کرو، اگر یہ چیز اللہ کے ہاں تقویٰ اور دنیا میں عزت کا باعث ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سب سے آگے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بیوی یا اپنی لڑکی کا بارہ اوقیہ سے زیادہ حق مہر نہیں باندھا۔[5]
ان احادیث کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مسنون حق مہر پانچ صد درہم ہے، تاہم حسب توفیق زیادہ مہر دینے میں چنداں حرج نہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَ اِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَّ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَيْ ﴾[6]
|