بھی بھائی کو ہی ملے گا، قرضہ کی یہ رقم مسجد میں خرچ نہیں کی جا سکتی۔ اگر اس نے وصیت کی ہوتی تو کل جائیداد سے3/1تتک وصیت کے مطابق مسجد وغیرہ پر دی جا سکتی تھی۔ مرنے کے بعد انسان کا کل ترکہ اس کے جائز ورثاء کو منتقل ہو جاتا ہے، اب ان ورثاء کی رضامندی سے ہی مسجد وغیرہ پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
بصورت دیگر وہ ورثاء کا ہے اسے کوئی رشتہ دار اپنی صوابدید کے مطابق خرچ نہیں کر سکتا۔
صدقہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا صدقہ اجر میں زیادہ بڑا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’زیادہ اجر و ثواب والا صدقہ وہ ہے جو تندرستی کی حالت میں اس وقت خرچ کیا جائے جب انسان کے اندر دولت کی چاہت اور اسے پاس رکھنے کی حرص ہو، اسے خرچ کی صورت میں محتاجی کا خطرہ اور روک رکھنے کی صورت میں دولت مندی کی امید ہو، ایسا نہ ہو کہ تم سوچتے اور ٹالتے رہو یہاں تک کہ تمہارا آخری وقت آجائے اور اس وقت تم مال کے متعلق وصیت کرنے لگو کہ اتنا مال فلاں کو اور اتنا فلاں کو، اللہ کے لیے دے دیا جائے جبکہ اس وقت وہ مال تمہاری ملکیت سے نکل کر فلاں وارثوں کا ہو چکا ہو۔‘‘ [1]
بہرحال مرحومہ نے جو کسی کو قرض دیا ہے وہ اس کے مرنے کے بعد اس کے حقیقی وارث اس کے بھائی کو دے دیا جائے، اسے اپنی صوابدید کے مطابق کوئی بھی رشتہ دار خرچ کرنے کا مجاز نہیں۔ واللہ اعلم!
ماموں کے لیے وراثت
سوال: ہمارے ہاں ایک عورت فوت ہوئی ہے، اس کا ترکہ ایک چھوٹا سا مکان ہے، اس کا کوئی بھی رشتہ دار موجود نہیں، صرف اس کا ماموں زندہ ہے۔ کیا وہ مکان ماموں کو دیا جائے گا یا اسے فروخت کر کے کسی محتاج کو دیا جائے؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب: مرنے کے بعد جن ورثاء میں میت کا ترکہ تقسیم کیا جاتا ہے وہ تین طرح کے ہیں:
٭ اصحاب الفرائض… جن کا حصہ قرآن و حدیث میں طے شدہ اور مقرر ہے۔ مثلاً خاوند وغیرہ۔
٭ عصبات… جن کا حصہ طے شدہ نہیں بلکہ وہ اصحاب الفرائض سے بچا ہوا لیتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں میت کی تمام جائیداد کے حق دار بنتے ہیں۔
٭ ذوالارحام… وہ قریبی رشتہ دار جو اصحاب الفرائض اور عصبات نہ ہوں۔ مثلاً ماموں، خالہ اور پھوپھی وغیرہ۔
صورت مسؤلہ میں مرحومہ کا وارث ماموں، ’’ذوالارحام‘‘ سے ہے۔ ان کی وراثت کے متعلق علمائے امت میں حسب ذیل اختلاف ہے:
ایک اہل علم کی جماعت کا رحجان یہ ہے کہ ’’ذوالارحام‘‘ وارث نہیں بنتے اور اصحاب الفرائض یا عصبات کی عدم موجودگی میں میت کا ترکہ بیت المال میں جمع کرا دیا جائے۔
|