’’اے ابو عبداللہ! کیا تم نے طواف افاضہ کر لیا ہے؟‘‘
اس نے کہا نہیں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی قمیص اتار دو۔‘‘
چنانچہ اس نے اپنی قمیص سر کی جانب سے اتار دی، اور اس کے ساتھی نے بھی اپنی قمیص سر کی جانب سے اتار دی پھر انہوں نے سوال کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسا کیوں ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بلاشبہ تمہیں اس دن رخصت ہے کہ جب تم جمرہ کو کنکریاں مار لو تو تم حلال ہو جاؤ یعنی ہر اس چیز سے جو تم پر حرام کی گئی ہے سوائے بیویوں کے۔ اگر بیت اللہ کے طواف کرنے سے پہلے شام ہو جائے تو تم پھر سے محروم ہو جاؤ گے جیسا کہ کنکریاں مارنے سے پہلے تھے حتی کہ اس کا طواف کر لو۔‘‘[1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دسویں تاریخ کو شام تک اگر حاجی طواف افاضہ نہ کر سکا ہو تو اسے دوبارہ احرام کی حالت میں آ جانا چاہیے۔ یعنی اسے احرام پہن لینا چاہیے اور طواف افاضہ مکمل کرنے تک اس پر احرام کی پابندیاں برقرار رہیں گے۔ واللہ اعلم
احرام کی دو رکعت
سوال: حائضہ عورت، احرام کی دو رکعت کیسے ادا کرے گی جب کہ وہ تو نماز پڑھنے کے قابل نہیں، نیز یہ بھی بتائیں کہ حائضہ عورت زبانی قرآن کریم کی تلاوت کر سکتی ہے؟
جواب: ہمارے ہاں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ احرام باندھ کر دو رکعت پڑھی جائیں، اکثر حضرات اس پر عمل پیرا ہیں، حالانکہ احرام کے لیے خاص طور پر کوئی نماز مشروع نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات منقول نہیں، البتہ ذوالحلیفہ میں آپ نے احرام باندھ کر ظہر کی دو رکعت ادا کی تھیں، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ احرام کی کوئی خاص نماز ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی کوئی عمل یا بات منقول نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ احرام کی دو رکعت ہیں۔ اگر کوئی عورت احرام سے قبل حائضہ ہو گئی ہے تو اسے چاہیے کہ اسی حالت میں احرام باندھ لے اور حج یا عمرہ کی نیت کرے، اسے احرام کی دو رکعت ادا کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ نماز مشروع نہیں۔ حالت احرام میں مسجد جانا منع ہے، باقی ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن پر کوئی پابندی نہیں البتہ تقدس و احترام کے پیش نظر قرآن مجید کو ہاتھ نہ لگائے۔
بلند آواز سے تلبیہ کہنا
سوال: حج یا عمرہ کے موقع پر با آواز بلند تلبیہ کہنا مستحب ہے۔ کیا عورتیں بھی مذکورہ تلبیہ با آواز بلند کہیں گی یا وہ آہستہ
|