جنازہ مسجد میں ادا کی تھی اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا جنازہ بھی مسجد میں پڑھا تھا۔ [1]
ان روایات کے پیش نظر مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا اور جو لوگ اسے ناجائز کہتے ہیں وہ بے بنیاد اور لایعنی اوہام کا شکار ہیں، اگرچہ ہمارے نزدیک جنازہ مسجد سے باہر جناز گاہ میں پڑھنا افضل ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام سے اکثر و پیشتر نماز جنازہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں پڑھنا ہی ثابت ہے۔ (واللہ اعلم)
عورتوں کا مسجد میں نماز ادا کرنا
سوال: کچھ عورتیں مسجد میں بڑے شوق سے نماز ادا کرتی ہیں، کیا عورتوں کا مسجد میں آنا جائز ہے، اگر وہ اپنے گھر میں نماز ادا کریں تو کیا اس کی اجازت ہے؟
جواب: مرد حضرات کا مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا ضروری ہے، البتہ عورتوں کے لیے جائز ہے کہ وہ مسجد میں آئیں اور نماز باجماعت ادا کریں، بشرطیکہ مسجد میں پردے کا اہتمام ہو اور یہ خود بھی مسجد میں سادگی کے ساتھ آئیں، ممکن ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنے سے انہیں اضافی ثواب مل جائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ عورتوں کا گھر میں نماز ادا کرنا بہتر ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی عورتوں کو مساجد میں جانے سے مت روکو اگرچہ ان کے گھران کے لیے بہتر ہیں۔‘‘[2]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کی اپنے گھر کے اندر پڑھی ہوئی نماز، صحن میں پڑھی جانے والی نماز سے افضل ہے اور گھر کے اندرونی خاص کمرے میں نماز بیرونی کمرے میں ادا کی گئی نماز سے افضل ہے۔[3]
بہرحال عورتوں کو اگر مسجد میں نماز پڑھنے کا شوق ہو تو سادگی کے ساتھ مسجد میں آئیں اور نماز باجماعت ادا کریں، اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ خاوند کو اس جذبہ خیر کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے تاہم اگر عورت اپنے گھر میں نماز پڑھنے کا اہتمام کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ (واللہ اعلم)
قسم کے لیے مسجد میں جانا
سوال: ہمارے ہاں جس شخص کے متعلق کوئی شک و شبہ ہو اور اس سے صفائی لیتے وقت اسے مسجد میں لے جاتے ہیں، وہاں وضو کرانے کے بعد اس سے قسم لی جاتی ہے یا فریق مخالف کو کہا جاتا ہے کہ وہ قرآن پر رکھی ہوئی رقم اٹھا لے، ایسے کاموں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب: زمان و مکان کی تخصیص سے اصل قسم میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے جہاں عدالت ہے، اسی جگہ مدعی علیہ سے
|