کو دیا جائے۔ امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جو میت کا وارث ہو اس کے لیے ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں۔ صورت مسؤلہ میں قرآنی تعلیم کے مطابق وصیت کی اصلاح ضروری ہے۔ واللہ اعلم
نشر و اشاعت پر زکوٰۃ فنڈ خرچ کرنا
سوال: صاحب حیثیت لوگ زکوٰۃ فنڈ سے دینی کتب طبع کر کے تقسیم کرتے ہیں۔ کیا ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی مد میں دینی کتب کی نشر و اشاعت بھی آتی ہے، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں کہ فی سبیل اللہ کی مد میں کیا کیا مصارف آتے ہیں؟
جواب: انسان جب صدقہ و خیرات کرتا ہے تو اس کی دو اقسام ہیں:
٭ فرض صدقہ: اس سے مراد وہ صدقات ہیں جو شریعت کی طرف سے ایک مسلمان پر فرض ہیں، ان کی مقدار اور مصارف بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ ہیں، مثلاً زکوٰۃ، فطرانہ اور کفارہ وغیرہ۔
٭ نفلی صدقہ: اس سے مراد وہ صدقات ہیں جو انسان اپنی خوشی سے دیتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر فرض نہیں، اسے عام طور پر خیرات کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی مقدار اور مصارف اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ نہیں ہیں، ایسے صدقات کو اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں فرض صدقات یعنی زکوٰۃ وغیرہ کے آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں، ان میں ایک ’’فی سبیل اللہ‘‘ ہے جسے ہم لوگوں نے بہت عام کر دیا ہے کہ ہر کار خیر کو فی سبیل اللہ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے اور وہاں مال زکوٰۃ کو خرچ کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے جو براہ راست اللہ تعالیٰ کے دین کو باقی ادیان پر غالب کرنے کے لیے کیا جائے، اس سے مراد قتال وغیرہ ہے۔
ہمارے رحجان کے مطابق جہاد و قتال کے علاوہ دیگر تمام کوششیں فی سبیل اللہ میں داخل نہیں ہیں کہ ان پر مال زکوٰۃ صرف کیا جائے۔دینی کتب کی نشر و اشاعت، اللہ کے دین کو عام کرنے کی کوشش ہے لیکن اسے جہاد و قتال کا درجہ نہیں دیا جا سکتا کہ اس پر زکوٰۃ وغیرہ صرف کی جائے۔ اسی طرح حج اور عمرہ کو بھی بعض احادیث میں فی سبیل اللہ میں داخل کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کرنے کا ارادہ کیا تو ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا کہ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اپنے اونٹ پر حج کراؤ، اس نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں جس میں میں تمہیں حج کراؤں۔
عورت نے کہا کہ تیرا فلاں اونٹ موجود ہے۔
خاوند نے جواب دیا کہ وہ جہاد (فی سبیل اللہ) کے لیے وقف ہے۔
چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا اور اپنی بیوی کا معاملہ پیش کیا تو آپ نے فرمایا:
|