دریافت نہیں فرمایا بلکہ عورت کی ناپسندیدگی اور حق مہر کی واپسی پر شوہر کو جدا کرنے کا پابند کر دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں عدالتی دباؤ کے ساتھ اپنے حق خلع کو شوہر پر نافذ کر دینے کی مجاز ہیں اور اس سلسلہ میں شوہر کی رضامندی ضروری نہیں۔ واللہ اعلم!
طلاق بذریعہ موبائل
سوال: میں نے اپنی بیوی کو موبائل فون پر بذریعہ میسج طلاق دی،طلاق کے ایک دن بعد رجوع کر لیا، جرگہ نے لڑکی کو صلح کے لیے دس د ن کی مہلت دی، لیکن وہ صلح کے لیے آمادہ نہ ہوئی، میں نے اس کے بعد رابطہ نہیں کیا۔ ایسے حالات میں کیا طلاق ہو چکی ہے؟
جواب: ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم نے طلاق کو بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز اخلاق کو بنظر تحسین نہیں دیکھا۔
چنانچہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے اللہ کے قوانین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے، آدمی اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھ سے رجوع کر لیا، میں نے تجھے طلاق دی۔‘‘[1]
صورت مسؤلہ میں بھی اسی طرح کا معاملہ ہے، موبائل فون سے بذریعہ میسج طلاق دی، پھر اگلے دن رجوع کر لیا جبکہ لڑکی اس کے گھر آباد ہونے کے لیے تیارنہیں۔ بلاشبہ نکاح کے بعد طلاق دینے کا اختیار خاوند کو ہے جبکہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’طلاق دینا تو اسی کا حق ہے جس نے پنڈلی کو پکڑا۔‘‘[2]
’’پنڈلی پکڑنا‘‘ ان بے تکلفانہ تعلقات کی طرف اشارہ ہے جو خاوند اور بیوی میں ہوتے ہیں، اس سے مراد خاوند ہے، اس نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے طلاق دی ہے اور اس طرح طلاق ہو جاتی ہے۔ چنانچہ طلاق کے بعد رجوع کرنا بھی اس کا حق ہے، بشرطیکہ آباد کرنے کا ارادہ ہو۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا﴾[3]
’’ان کے شوہر تعلقات درست کرنے پر آمادہ ہوں تو وہ دوران عدت انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘
سائل نے طلاق دی پھر رجوع کر لیا، اب مطلقہ بیوی اس کی زوجیت میں واپس آ چکی ہے، اگر وہ اپنے خاوند سے خلاصی چاہتی ہے تو اسے خلع لینے کا اختیار ہے لیکن یہ اقدام کسی معقول وجہ سے ہونا چاہیے کیوں کہ بلاوجہ خلع لینابھی سنگین جرم ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:
|