٭ اگر مطلع ابر آلود ہو تو مہینے کے تیس دن پورے کر کے اگلے مہینہ کا آغاز کر دیا جائے۔
رمضان کے لیے چاند کی رؤیت اگر کسی گواہی کی بنیاد پر ہے تو اس کے لیے ایک معتبر مسلمان کی گواہی کافی ہے۔
جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا، یقیناً میں نے رمضان کا چاند دیکھ لیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا معبود برحق نہیں؟‘‘
اس نے عرض کیا جی ہاں، میں اس امر کی بھی گواہی دیتا ہوں۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’لوگوں کو اطلاع دے دو کہ وہ کل روزہ رکھیں۔‘‘[1]
لیکن عید الفطر اور عید الاضحی کے چاند کی شہادت کے لیے دو معتبر مسلمانوں کا اعتبار ہوگا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رمضان کے آخری دن کے متعلق لوگوں کو اختلاف ہو گیا تو دو اعرابیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گواہی دی کہ انہوں نے کل شام چاند دیکھا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کرنے کا حکم فرمایا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کل عید پڑھنے کے لیے عید گاہ جائیں۔‘‘[2]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رمضان کے چاند کے لیے ایک معتبر مسلمان کی گواہی کافی ہے جب کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے لیے دو معتبر مسلمانوں کی گواہی کا اعتبار ہوگا۔ واللہ اعلم!
افطاری کے احکام
سوال: افطاری کے لیے کون سا وقت افضل ہے؟ کچھ لوگ غروب آفتاب کے بعد احتیاط کے طور پر مزید انتظار کرتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز کسی کا روزہ افطار کرانے کی کیا فضیلت ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس سے آگاہ فرمائیں۔
جواب: جب سورج کے غروب ہونے کا یقین ہو جائے تو روزہ افطار کر دینا چاہیے۔ احتیاط کے نام پر مزید انتظار کرنا درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’ہمیشہ وہ لوگ بھلائی اور خیر و برکت میں رہیں گے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘[3]
ایک حدیث میں ہے کہ یہود و نصاریٰ دیر سے افطار کرتے ہیں۔[4]
کسی دوسرے کو افطاری کروانا بہت زیادہ اجر و ثواب کا کام ہے۔
حدیث میں ہے: ’’جو کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے تو اسے روزے دار کے برابر ثواب ملے گا۔ نیز ان کے اجر و
|