گیا ہو اسے بھی چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اس میں سے حسب توفیق خرچ کرے۔‘‘[1]
حدیث میں اپنے اہل خانہ پر خرچ کرنے کی بہت فضیلت آئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’زیادہ فضیلت والا دینار وہ ہے جسے کوئی شخص اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے۔‘‘[2]
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب آدمی اپنے اہل خانہ پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔‘‘[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’تو کوئی بھی چیز اللہ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرے تو تجھے اس پر اجر و ثواب ملے گا حتیٰ کہ وہ چیز جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔‘‘[4]
ان آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا چاہیے اور ان پر خرچ کرنا اس کی ذمہ داری ہے نیز اس میں کنجوسی سے کام نہ لے۔ اتنا ضرور خرچ کرے جتنا واجب ہے لیکن اسراف سے پرہیز کرے۔ بیگمات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے خاوندوں کو بلاوجہ اخراجات کے سلسلہ میں تنگ نہ کریں۔ بہر حال افراط و تفریط سے اجتناب کرتے ہوئے میانہ روی کے ساتھ گھر کے اخراجات پورے کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے اور اسے یہ ذمہ داری نبھانا چاہیے۔
لے پالک سے پردہ
سوال: میں نے ایک یتیم بچے کو گود لیا اور اس کی پرورش کی، اب وہ بلوغت کے قریب ہے، کیا بالغ ہونے کے بعد مجھے اس سے پردہ کرنا ہوگا یا بیٹا ہونے کی حیثیت سے میں اس سے پردہ نہ کروں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب: اگر کوئی عورت اپنے بھائی یا بہن کا لڑکا لے کر اس کی پرورش کرتی ہے تو بالغ ہونے کے بعد اس سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ اس کا بھتیجا یا بھانجا ہے۔ ان سے پردہ کرنا ضروری نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں اس امر کی صراحت کی ہے۔[5]
اگر ان کے علاوہ کوئی اور یتیم بچہ گود میں لیا ہے تو بالغ ہونے کے بعد اس پر پردہ کرنا ضروری ہے، اگرچہ ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے تاہم اللہ کا حکم سمجھ کر یہ کام کرنا چاہیے۔
|