چنانچہ میں نے اس سے شادی کر لی۔‘‘
اس دیکھنے سے مراد اتفاقاً اچٹتی نظر سے دیکھنا ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے خود بیان کیا ہے، لیکن ہماری تہذیب نو نے اسے غلط رنگ دیا ہے۔ ہمارے ہاں نوجوان لڑکے لڑکی کا اس بہانے تنہائی میں ملاقاتیں کرنا، سیر و تفریح کے لیے جانا، خریداری کرنا، کسی پارک میں چائے پینا، گپ شپ کرنا یا فون پر گھنٹوں باتیں کرتے رہنا، شریعت اس امر کی اجازت نہیں دیتی۔ قبل از نکاح اس طرح کی ملاقاتیں حرام ہیں کیوں کہ قبل از نکاح منگیترایک دوسرے کے لیے اجنبی ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا سوال میں ذکر کردہ اشیاء حرام اور ناجائز ہیں۔ واللہ اعلم!
عورت کا ولی کے بغیر نکاح نہیں
سوال: میں ایک لڑکے سے اس کی اسلام پسندی کی وجہ سے محبت کرتی تھی اور اس سے نکاح پر آمادہ تھی لیکن میرے والد اس پر راضی نہ تھے، میں نے عدالتی نکاح کر لیا، اب والد صاحب اس نکاح پر راضی ہیں۔ کیا ایسا نکاح صحیح ہے؟
جواب: جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ عورت کے نکاح کے لیے ولی اور سرپرست کا ہونا اور اس کا اجازت دینا بنیادی شرط ہے، کیوں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عورت کے ولی کو عقد نکاح کے بارے میں مخاطب کیا ہے، اگر نکاح کا معاملہ ولی کے بجائے عورت کے ہاتھ میں ہوتا تو اس کے نکاح میں ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں متعدد آیات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک عنوان بایں الفاظ ذکر کیا ہے:
’’مَنْ قَالَ لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِی‘‘ ’’جس شخص کا یہ موقف ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘[1]
صحیح احادیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
چنانچہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘[2]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ یہ کلمات آپ نے تین مرتبہ دہرائے۔‘‘[3]
بہرحال عورت خواہ کنواری ہو یا شوہر دیدہ، ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر اس کا نکاح صحیح نہیں۔ اس بناء پر جو لڑکی والدین سے بغاوت کر کے گھر سے بھاگ جاتی ہے اور ان کی اجازت کے بغیر عدالتی نکاح کر لیتی ہے تو اس کا نکاح صحیح نہیں، خواہ اس سے اولاد ہی کیوں نہ پیدا ہو جائے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ اگر انہیں کوئی اچھا نیک رشتہ ملتا ہے تو محض ضد کی وجہ سے اس میں رکاوٹ نہ بنیں۔ صورت مسؤلہ میں چونکہ نکاح کے وقت والد کی رضامندی نہ تھی، اس لیے یہ نکاح صحیح نہیں۔ اگر والد بعد میں راضی ہو جاتا ہے تو علیحدگی اختیار کرنے کے بعد مشرقی روایات کے مطابق دوبارہ نکاح کیا جائے، چونکہ پہلا نکاح صحیح نہیں تھا اس لیے میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس گناہ کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اس کے حضور سچی توبہ کریں۔
|