کا نام بڑی حقارت سے لیتے ہیں، بعض اوقات سوچتی ہوں کہ ایسے خاوند کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دوں۔ اس سلسلہ میں میری رہنمائی کریں۔
جواب: والدین کا اولاد پر بہت احسان ہے،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے حسن سلوک کو فرض قرار دیا ہے۔ بیوی کے ذمے خاوند کا بھی بہت حق ہے بلکہ خاوند کا حق سب حقوق سے بڑا ہے، لہٰذا ان دونوں کے حقوق میں سے کسی ایک کے حق میں بھی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ جب بیوی دیکھے کہ اس کا خاوند اس کے والدین کے حق میں کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے تو اس کے اسباب پر غور کرنا چاہیے، اگر والدین کا اس میں قصور ہے تو بڑے ادب و احترام کے ساتھ والدین سے بات کرنی چاہیے اور اگر خاوند کی غلطی ہے تو اپنے خاوند کو اچھے انداز سے سمجھانا چاہیے اور اسے باور کرایا جائے۔ کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾[1]
’’اور تم اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش اختیار کرو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں بیوی کے والدین کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا شامل ہے کیوں کہ اس سے بیوی خوش ہوگی اور بیوی کے والدین کو تکلیف نہیں دینا چاہیے کیوں کہ انہیں برا بھلا کہنے سے بیوی کو بھی تکلیف ہوگی۔ حدیث میں ہے: اور وہ بہترین چیز جس کی وجہ سے کسی کی عزت کی جائے، اس کی بیٹی یا بہن ہے۔[2]
کسی کو بیٹی یا بہن کا نکاح دینا بہت بڑا احسان ہے، اس حدیث کے پیش نظر بیوی کے ماں باپ اور بھائی کا احترام لازم ہے۔ بیوی کا باپ، خاوند کا باپ ہے، اس کا احترام اسی طرح ضروری ہے کہ جس طرح حقیقی باپ کا احترام کیا جاتا ہے۔
عام طور پر آدمی کے تین باپ ہوتے ہیں جو واجب الاحترام ہیں: پہلا حقیقی والد، دوسرا استاد، اور تیسرا سسر۔ اسی طرح بیوی کی والدہ کا بھی احترام ضروری ہے، اس بناء پر تو اس سے نکاح حرام کر دیا گیا ہے اور اس سے پردہ نہیں رکھا گیا۔ بہر حال اس سلسلہ میں عورت کو انتہائی فراست اور عقل مندی سے کام لینا ہوگا، جذبات میں آکر کوئی بھی غلط اقدام نقصان دہ ہے۔ ہاں اگر والدین اپنی بیٹی کو کوئی حکم دیں اور خاوند نے بھی اسے کسی بات کے متعلق کہا جو والدین کے حکم کے مخالف ہے تو اس صورت میں خاوند کا حکم مقدم کیا جائے کیوں کہ شریعت میں خاوند کا حق زیادہ بڑا ہے۔ لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ والدین کی نافرمانی کی جائے اور نہ ہی ان کے حقوق ادا کئے جائیں، خاوند کے حق کو مقدم رکھنا صرف تعارض کی صورت میں ہے۔ واللہ اعلم!
حرام کمائی سے اخراجات پورے کرنا
سوال: میری شادی ایسے خاوند سے ہوئی ہے جو بینک میں ملازمت کرتا ہے، جب کہ بینک میں سودی کاروبار ہوتا ہے، جس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ میں اس سلسلہ میں بہت پریشان ہوں، مجھے اس بات کا علم ہے کہ حرام کھانے پینے سے عبادت قبول نہیں ہوتی، میرے لیے ایسے حالات میں کیا حکم ہے؟
|