’’جس عورت نے بغیر سخت مجبوری کے اپنے خاوند سے طلاق مانگی، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘[1]
صورت مسؤلہ میں طلاق اور رجوع دونوں شریعت کے مطابق ہیں، عورت کو چاہیے کہ جہاں تک خلع سے بچ کر گھر بسانا ممکن ہو، اس کی کوشش کرے۔ اسی طرح مرد کو بھی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حتی الوسع طلاق جیسے اقدام سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
نابالغہ کانکاح
سوال: کچھ خاندان اپنی بچی کا چھوٹی عمر میں نکاح کر دیتے ہیں، جو آئندہ عائلی زندگی میں کئی ایک خرابیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ کیا شرعاً ایسا جائز ہے، اگر بچی بالغ ہو کر اس نکاح پر راضی نہ ہو تو شریعت میں اس کا کیا حل ہے؟ اس مسئلہ کے متعلق وضاحت سے تحریر کریں۔
جواب: نکاح کے وقت لڑکی کو عاقل اور بالغ ہونا چاہیے تاہم یہ ضروری نہیں بلکہ چھوٹی عمر میں بھی بچی کا نکاح کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا جبکہ ان کی عمر چھ سال تھی اور جب رخصتی ہوئی تو ان کی عمر نو سال تھی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو سال تک رہیں۔[2]
اس حدیث کی شرح لکھتے ہوئے علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح بلوغت سے پہلے کر دے۔‘‘[3]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات پر علماء امت کا اجماع نقل کیا ہے۔[4]
اس مسئلہ میں صرف ابن شبرمہ کا اختلاف نقل کیا گیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ قبل از بلوغ نکاح جائز نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح آپ کی خصوصیت پر محمول ہے، لیکن اس اختلاف کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت قرار دینا بھی غلط ہے کیوں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ علماء امت نے اسے عموم پر ہی محمول کیا ہے۔ چنانچہ سرخیل محدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس کے متعلق بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’آدمی کا اپنی چھوٹی عمر کی اولاد کا نکاح کرنا۔‘‘[5]
پھر انہوں نے ایک قرآنی آیت سے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ الِّٰٓٔيْ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ﴾[6]
’’(مطلقہ کی عدت تین ماہ ہونے کا حکم) ان کا بھی ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔‘‘
|