کے ساتھ بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت کی ہے۔‘‘[1]
ایک دفعہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں مدینہ طیبہ آئے اور انہیں بالوں کی وگ ملی تو آپ نے فرمایا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہودیوں کے علاوہ کوئی مسلمان یہ کام کرتا ہوگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جعل سازی کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ یعنی بالوں کی اس طرح پیوند کاری کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کہا ہے۔‘‘[2]
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل کی ہلاکت کا یہی سبب ہوا کہ انہوں نے ایسے کام شروع کر دئیے تھے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والے تھے، ان میں سے ایک یہ ہے۔‘‘[3]
بہر حال انسانی بالوں یا دوسرے اعضاء کا کاروبار شرعاً جائز نہیں، لیکن اس وقت اس کاروبار کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جب اسے کسی ناجائز کام کے لیے استعمال کیا جائے۔ سائل کو چاہیے کہ وہ کوئی دوسرا جائز کاروبار کرے، اس قسم کے حرام اور ناجائز کاروبار کا اختیار کرنا ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ حلال اور جائز کاروبار کی توفیق سے نوازے۔ آمین!
ادھار خریدنے کی ایک ناجائز صورت
سوال: میں تجارت سے منسلک ہوں، مجھے بعض اوقات کچھ رقم کی ضرورت پڑتی ہے، میں کسی سے ادھار پر کوئی چیز خرید لیتا ہوں پھر جس سے میں نے وہ چیز لی ہوتی ہے وہ نقد سستی قیمت سے مجھ سے وہی چیز خرید لیتا ہے، اس سے مجھے رقم مل جاتی ہے۔ کیا اس طرح کی خرید و فروخت جائز ہے؟
جواب: کسی حرام چیز کو مختلف ذرائع سے حلال و جائز بنانے کی کوشش کرنا باعث لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو اس لیے ملعون ٹھہرایا کہ انہوں نے حرام کردہ چیزوں کو مختلف حیلوں سے حلال کرنے کی کوشش کی۔ صورت مسؤلہ میں بھی اسی طرح کے ایک حیلہ سے کام لیا گیا ہے جس میں ایک حرام چیز کو حلال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ طے شدہ اضافہ کی شرط سے قرض لینا سود ہے۔ اب اس سود کو خرید و فروخت کے ذریعے حلال کرنے کی کوشش کرنا ناجائز حیلہ ہے جس کی شریعت میں اجازت نہیں۔ شرعی اصطلاح میں اسے بیع عینہ کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:
’’کوئی آدمی کسی چیز کو مقررہ قیمت پر معین وقت کے لیے فروخت کرے، پھر میعاد پوری ہونے پر خریدار سے وہی چیز کم قیمت پر خرید لے۔‘‘
اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی حسب ذیل ہے: ’’جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ کر کھیتی
|