طرح کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور معمولات کا مذاق اڑایا جاتا ہے اگر دل میں ایمان کی رمق باقی ہو تو قرآن کریم کی موجودہ وعید سے انسان کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’تم میں سے جو شخص بھی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کی شناعت بیان کر دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اسے دل سے برا خیال کرے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔‘‘[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
’’جس قوم میں گناہ کیے جا رہے ہوں پھر وہ انہیں روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود بھی انہیں منع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلا کر دے گا۔‘‘[2]
اللہ تعالیٰ ان احکام پر عمل کی توفیق دے۔
خوبصورتی کے لیے ابرو کے بال اتارنا
سوال: کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ابرو کے بال اتار دے جو اس کی بد صورتی کا باعث ہوں؟
جواب: ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے بلکہ کبیرہ گناہ ہے۔ اس عمل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس امر کی صراحت کی ہے۔[3]
البتہ کچھ بال غیر معتاد ہوتے ہیں، ایسے بال جو جسم کے ان حصوں پر اگ آئیں جہاں عام طور پر بال نہیں اگتے۔ مثلاً عورتوں کی مونچھیں اگ آئیں یا ان کے رخساروں پر بال آجائیں تو ایسے بالوں کو اتارنے میں کوئی حرج نہیں، کیوں کہ یہ خلاف عادت ہیں اور چہرے کے لیے بدنمائی کا باعث ہیں۔ جہاں تک ابرو کا تعلق ہے تو ان کا باریک یا پتلا ہونا یا گھنا ہونا یہ سب کچھ امر معتاد ہے اور ایسے بالوں سے تعرض کرنے کی شرعاً اجازت نہیں۔ یہ ایسا عیب نہیں کہ انسان کو اس کے ازالے کی ضرورت پیش آئے، ہاں اگر بال اس قدر بڑھ جائیں جو آنکھوں میں تکلیف کا باعث ہوں تو انہیں کاٹا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم!
مانع حیض ادویات کا استعمال
سوال: فریضہ حج کی آمد آمد ہے، اس کے متعلق خواتین کو ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کہ وطن واپسی کی سیٹ کنفرم ہوتی ہے، وہ اکیلی سفر بھی نہیں کر سکتیں، دوسری طرف وہ ایام حج میں عارضہ ایام سے دوچار ہوجاتی ہیں، کیا ایسے حالات میں مانع حیض ادویات کا استعمال شرعاً جائز ہے تاکہ کسی قسم کی مشکلات سے دوچار نہ ہوں؟
|