ایک حدیث میں ہے کہ ان شعبوں میں سب سے اعلیٰ شعبہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔‘‘[1]
اس حدیث میں ادنیٰ اور اعلیٰ شاخ کی تعیین کر دی گئی ہے لیکن فروع ایمان کی اصل تعداد متعین نہیں ہوتی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھا ہے: ’’امورِ ایمان، اعمالِ قلب، اعمالِ زبان اور اعمالِ بدن پر مشتمل ہیں۔ ایمانِ قلب کی چوبیس، اعمالِ زبان کی سات اور اعمالِ بدن کی اڑتیس شاخیں ہیں، ان کا مجموعہ ۶۹ ہے۔[2]
پھر آپ نے ان فروع ایمان کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مستقل ایک کتاب ’’شعب الایمان‘‘ کو مرتب فرمایا ہے جو مطبوع ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے فروع ایمان کو احادیث کی روشنی میں بڑی شرح وبسط سے بیان کیا ہے بہرحال ایمان کے بنیادی اصول چھ ہیں جو حدیث جبریل میں بیان ہوئے ہیں اور امور ایمان کی تعداد ساٹھ سے زیادہ ہے۔ امام بخاری نے بھی امورِ ایمان کی تفصیل بیان کی ہے۔ واللہ اعلم
شیطانی وساوس اور برے خیالات
سوال :میں آج کل سخت ذہنی پراگندگی کا شکار ہوں، میرے دل میں بہت برے برے خیالات آتے ہیں، میں انہیں بیان نہیں کر سکتا۔ ان کے متعلق قرآن و حدیث میں کیا وضاحت ہے اور انہیں کیوں کر دور کیا جا سکتا ہے؟
جواب: شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے ان کے دلوں میں برے برے وسوسے اور سنگین قسم کے خیالات ڈالتا رہتا ہے تاکہ انہیں نفسیاتی قلق اور فکری اضطراب میں مبتلا کرے جس سے ان کا عقیدہ خراب اور ایمان مکدر ہو جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس طرح کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم اپنے دلوں میں ایسی باتیں پاتے ہیں جنہیں زبان سے بیان کرنا بہت گراں گزرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم واقعی ایسی باتیں سوچتے ہو اور انہیں زبان پر لانا گراں گزرتا ہے؟‘‘
لوگوں نے عرض کیا، جی ہاں! ایسا ہی معاملہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ ایمان کے خالص ہونے کی علامت ہے۔‘‘[3]
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: ’’میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ انہیں زبان پر لانے سے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں جل کر کوئلہ بن جاؤں۔‘‘
|