٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صیام داؤدی کو احب الصیام قرار دیا ہے، اس صورت میں آدھا سال روزوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ یعنی ایک دن روزہ رکھا جائے اور ایک دن اسے چھوڑ دیا جائے۔
بہر حال اذان اول سارا سال چلتی تھی، اسے صرف رمضان کے ساتھ خاص کرنا انتہائی محل نظر ہے۔
احناف کے علاوہ جمہور فقہاء اور محدثین، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ سحری کے وقت اس اذان کو مستحب کہتے ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ ان دونوں اذانوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ فاصلہ بہت کم ہوتا تھا۔
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’ایک اترتا اور دوسرا (اذان دینے کے لیے مینارہ پر) چڑھ جاتا تھا۔‘‘[1]
اس سے قلت میں مبالغہ مقصود ہے، ہمارے نزدیک زیادہ سے زیادہ فاصلہ نصف گھنٹہ کا ہونا چاہیے، اسے منٹوں میں بیان کیا جا سکتا ہے گھنٹوں میں نہیں۔ واللہ اعلم
رمضان کا شیڈول
سوال: ماہِ رمضان اپنی برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے، لیکن ہماری اکثریت اسے غفلت میں گزار دیتی ہے، روزہ رکھنے کے بعد اکثر لوگ سو جاتے ہیں اور دن کا اکثر حصہ نیند میں گزار دیا جاتا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں اسے گزارنے کا کیا شیڈول ہونا چاہیے؟
جواب: یقیناً یہ مہینہ بہت برکتوں کا حامل ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق گزارا جائے۔
ہمارے نزدیک اس پروگرام کی تفصیل حسب ذیل ہونا چاہیے:
٭ سحری کرنے کے بعد، نماز فجر سے پہلے تھوڑا سا وقت دعا اور تنہائی کے لیے خاص کر لیا جائے، اس میں تمام مواصلاتی آلات یعنی موبائل وغیرہ بند کر کے اپنے پروردگار سے تعلق جوڑنے کی لیے مخصوص کر لیں۔ اللہ سے دعائیں کریں اور دنیا و آخرت کی بھلائی طلب کریں یعنی اس وقت کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور اللہ عزوجل سے اپنے قیمتی مطالبات منوانے کے لیے مخصوص کر لیں۔
٭ فجر کی نماز با جماعت ادا کرنے کے لیے تیاری کریں اور فجر کی سنتوں کو نماز فجر سے پہلے ادا کرنے کی عادت اختیار کریں کیوں کہ یہ دو سنت دنیا و مافیہا سے بہتر اور افضل ہیں۔ نماز فجر جماعت کے ساتھ نہایت خشوع و خضوع اور حضور قلب سے ادا کریں۔
٭ نماز کے بعد مسنون اذکار ضرور کریں اور کچھ وقت تلاوت قرآن کے لیے ضرور مخصوص کریں پھر طلوع آفتاب کے بعد
|