٭ شر اور فساد کے وسائل سے دور بھاگے اور ان کے قریب ہی نہ جائے۔
مذکورہ بالا شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے بازار میں جانا جائز ہے جہاں عورتیں عریاں یا نیم عریاں لباس پہنے ہوئے ہوں اور اپنے حسن کی نمائش کے لیے بے تاب ہوں، ایسے حالات میں برائی کی روک تھام کے لیے وہاں جانا جائز ہے۔ حدیث میں ہے:
’’لوگ جب برائی دیکھتے ہیں اور اسے روکتے نہیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ، اس برائی کی سزا میں انہیں بھی شامل کر لے۔‘‘[1]
ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے لیے ایسے بازاروں میں جائے جہاں محض فساد و شر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
عورت کا ملازمت کرنا
سوال: میری بیٹی کالج میں پڑھاتی ہے، بعض اوقات اسے لڑکوں کی کلاس لینا پڑتی ہے لیکن وہ انہیں با پردہ ہو کر پڑھاتی ہے، ایسے حالات میں اس کا ملازمت کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے مردو زن کے دائرہ کار کی تقسیم کچھ اس طرح کی ہے کہ عورت کو اندرون خانہ ذمہ داری سونپی ہے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے شوہر کی خدمت اور بچوں کی تربیت کر سکے اور آدمی کی بیرون خانہ ذمہ داری ہے کہ اخراجات کے لیے بھاگ دوڑ کرے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ﴾[2]
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے کہ مرد حضرات اپنا مال خرچ کرتے ہیں‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو معاشی ذمہ داری پورا کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے، لیکن ہمارا معاشرہ الٹی سمت پر چل نکلا ہے۔ عورت کا کالج میں ملازمت کرنا چندان قباحت نہیں رکھتا، لیکن اس کا لڑکوں کو پڑھانا کئی ایک فتنوں پر پیش خیمہ ہو سکتا ہے، اگرچہ وہ باپردہ ان کو پڑھانے کا التزام کرے۔
ہمیں اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بہت یاد آتی ہے جو دور حاضر کی عکاسی کرتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے قریب سلام مخصوص لوگوں کو کیا جائے گا، تجارت پھیل جائے گی، حتی کہ عورت تجارت میں اپنے خاوند کی مدد کرے گی اور رشتے ناطے توڑے جائیں گے۔ [3]
|