کی جائیداد سے اسے کچھ نہیں ملتا۔
۲۔ وہ مطلقہ عورت جس کی عدت ختم ہو جائے، ایسی عورت کا بھی خاوند سے کوئی تعلق نہیں رہتا، اگر عدت کے بعد اس کا سابقہ خاوند فوت ہو جائے تو بھی اسے کچھ نہیں ملے گا۔
۳۔ وہ عورت جسے وقفہ وفقہ سے تیسری طلاق مل جائے۔ اس قسم کی مطلقہ عدت تو گزارے گی لیکن تیسری طلاق ملتے ہی خاوند سے تعلق ختم ہو جاتا ہے، اس قسم کی عورت کو بھی مرحوم خاوند کی جائیداد سے حصہ نہیں دیا جائے گا۔
بہرحال ہمارے رحجان کے مطابق مدخولہ بیوی جسے پہلی یا دوسری طلاق ملی ہو، اگر وہ دوران عدت ہے اور اس کا خاوند فوت ہو جائے تو اسے مرحوم خاوند کی جائیداد سے حصہ دیا جائے گا۔ (واللہ اعلم)
مسئلہ وراثت
سوال: ایک آدمی فوت ہوا، پس ماندگان میں بیٹی، پوتی، بہن اور فوت شدہ بیٹے کی بیوہ زندہ ہیں، مرحوم کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟
جواب: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کا ایک سوال ہوا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دیا جائے لیکن اس سلسلہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ضرور سوال کرنا، وہ بھی میرے جواب کی تصدیق کریں گے۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے جوا ب کا بھی حوالہ دیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تو صورت مسؤلہ میں وہی فیصلے کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، وہ یہ ہے کہ بیٹی کو نصف اور پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ قرآنی فیصلہ کے مطابق دو تہائی پورا ہو جائے اور باقی بہن کو دے دیا جائے۔ جب یہ جواب حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا تو انہوں نے فرمایا:
’’جب تک یہ عالم موجود ہیں مجھ سے سوال نہ کیا کرو۔‘‘[1]
صورت مسؤلہ میں مرحوم کی وراثت اس طرح تقسیم ہو گی کہ کل ترکہ سے بیٹی کو نصف، پوتی کو چھٹا حصہ اور باقی بہن کو مل جائے گا اور فوت شدہ بیٹے کی بیوہ محروم ہوگی۔
سہولت کے پیش نظر تمام جائیداد کے چھ حصے کر لیے جائیں، ان میں سے تین بیٹے کو، ایک پوتی کو اور باقی دو حصے بہن کو مل جائیں گے۔
جیسا کہ ذیل میں ہے: میت؍۶= بیٹی (۳) پوتی (۱) بہن (۲) بہو (محروم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔
ایک مسئلہ وراثت
سوال: میری ایک ہی بیٹی ہے، میں نے اس کی شادی کر دی ہے، اب وہ اپنے گھر میں اچھی زندگی گزار رہی ہے، میں
|