نہ ہو۔ جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے بھائی ابو عمیر تھے۔ حالانکہ وہ عمیر کے والد نہ تھے بلکہ ابھی چھوٹی عمر کے تھے، بہرحال باعزت طرز تخاطب کے لیے اسلام سے قبل معاشرہ میں کنیت کا رواج تھا۔ جسے اسلام نے برقرار رکھا۔ بعض اوقات کنیت اصل نام پر غالب آ جاتی ہے کہ اصل نام محو ہو جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ بڑے بیٹے کے نام پر کنیت رکھی جائے۔ اگر بیٹی ہے تواس کے نام پر بھی کنیت رکھی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا بیٹا قاسم تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کنیت ابوالقاسم رکھی تھی۔ چونکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہیں تھا، اس لیے مشہور ہے کہ ابو عیسیٰ کنیت نہیں رکھنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا جس کی کنیت ابو عیسیٰ تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عیسیٰ کا باپ نہیں تھا لہٰذا تجھے اپنی کنیت بدلنا ہو گی۔‘‘
لیکن یہ روایت محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتی کیوں کہ اس میں تدلیس پائی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو سزا دی تھی جس نے اپنی کنیت ابو عیسیٰ رکھی تھی۔[1]
لیکن ہمارے ہاں رحجان کے مطابق ابو عیسیٰ کنیت رکھنے میں چنداں حرج نہیں کیوں کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی کنیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ابو عیسیٰ رکھی تھی، اس کی صراحت ابو داؤد کی مذکورہ بالا روایت میں ہے۔محدثین میں سے امام ترمذی کی کنیت بھی ابو عیسیٰ ہے تاہم اس سے احتراز بہتر ہے تاکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا شرف لفظی طور پر بھی محفوظ رہے اور کسی کو شبہ نہ ہو کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بھی باپ تھے۔ واللہ اعلم!
بلاقصد قسم اٹھانا
سوال: میں اپنے دوست سے ملاقات کے لیے اس کے گھر گیا، اس نے مہمان نوازی کے طور پر مجھے جوس پیش کیا، اس کے اصرار پر میں نے کہا، اللہ کی قسم! میں نہیں پیتا، یہ بات ارادہ کے بغیر میری زبان سے سرزد ہوئی، اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: شریعت میں قسم کی حسب ذیل دو اقسام ہیں:
٭ انسان بات بات میں عادت کے طور پر ارادے کے بغیر قسم اٹھاتا رہتا ہے۔ مثلا ً اللہ کی قسم ہے، اللہ کی قسم ایسا نہیں ہے۔ اسے یمین لغو کہتے ہیں۔ اس پر کوئی موأخذہ یا کفارہ نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْۤ اَيْمَانِكُمْ ﴾[2]
’’اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر مواخذہ نہیں کرے گا۔‘‘
٭ انسان اپنے عزم و ارادہ سے جانتے بوجھتے ہوئے قسم کھاتا ہے، اس کے آگے دو اقسام ہیں: ایک یہ ہے کہ انسان کسی کو دھوکہ اور فریب دینے کے لیے قسم اٹھائے، اسے یمین غموس کہتے ہیں، یہ کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے۔[3]
|