جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ اصحاب الفرائض اور عصبات کے نہ ہونے سے ’’ذوالارحام‘‘ کو وارث بنایا جائے گا۔ اب جبکہ بیت المال کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے تو سب اہل علم اس امر پر متفق ہو گئے ہیں کہ ذوالارحام کو وارث بنایا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’جس میت کا کوئی وارث نہ ہو، اس کے ترکہ کا وارث اس کا ماموں ہو گا۔‘‘ [1]
عقل بھی تقاضا کرتی ہے کہ ماموں کو وارث بنایاجائے کیوں کہ اس کا میت کے ساتھ دو قسم کا تعلق ہے: خونی اور اسلامی، جبکہ بیت المال کے ساتھ صرف اسلام کا تعلق ہے۔ دو تعلق والا ایک تعلق رکھنے والے سے زیادہ حق رکھتا ہے۔ اس بناء پر ہمارا رحجان یہ ہے کہ میت کے مکان کا وارث ماموں کو قرار دیا جائے، اگر اسے بیچ کر محتاجوں میں تقسیم کرنا ہے تو اس کی اجازت سے ایسا ممکن ہو گا۔ واللہ اعلم!
شوہر کی وفات کے بعد بیوہ کی بے دخلی
سوال: میرے شوہر ایک حادثہ میں وفات پا چکے ہیں، میری کوئی اولاد نہیں۔ اب اس کے بھائی مجھے مکان سے بے دخل کر نا چاہتے ہیں۔ کیا میرا اس مکان میں حصہ نہیں ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کا حل بتائیں۔
جواب: جب شوہر فوت ہوتا ہے تو بیوہ کی دو حالتیں ممکن ہیں:
٭ اگر شوہر کی اولاد ہے تو اسے آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ﴾[2]
’’اگر تمہاری اولاد ہے تو بیواؤں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘
٭ اگر اس کی اولاد نہیں تو بیوہ کو چوتھا حصہ ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ﴾[3]
’’اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کا چوتھا حصہ ہے۔‘‘
صورت مسؤلہ میں بیوہ کا خاوند کی جائیداد سے چوتھا حصہ بنتا ہے، شوہر کی وفات کے بعد بیوہ، شوہر کی جائیداد میں شریک ہو جاتی ہے، اس لیے اسے جبراً بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ مکان اگر قابل تقسیم ہے تو اسے تقسیم کر دیا جائے اور بیوہ کو اس کا حصہ اسلامی دیا جائے اور اگر ناقابل تقسیم ہے تو ورثاء ایک دوسرے کے حصے خرید سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو کرایہ پر دے سکتے ہیں۔ باری باری رہائش بھی رکھ سکتے ہیں۔ مکان کو فروخت کر کے اس کی رقم بھی تقسیم کی جا سکتی ہے۔
الغرض بیوہ کو مکان سے بے دخل کرنا شرعا جائز نہیں بلکہ اسے وراثت سے حصہ دینا ضروری ہے۔
|