علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے معجم ابن عساکر کے حوالے سے بیان کیا ہے اور صراحت کی ہے کہ اس روایت میں ایک بختری بن عبید راوی متہم بالکذب اور وضاع راوی ہے۔ لہٰذا یہ روایت خود ساختہ اور من گھڑت ہے۔[1]
اس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت بھی بیان کی جاتی ہے، وہ فرماتی ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا ایک حمل ضائع ہو گیا تو آپ نے اس ناتمام بچے کا نام عبد اللہ رکھا اور میری کنیت اسی وجہ سے ام عبد اللہ رکھی گئی۔‘‘
یہ روایت بھی موضوع ہے چنانچہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ حدیث من گھڑت ہے۔‘‘[2]
ہمارے رحجان کے مطابق نا تمام مردہ بچوں کا نام رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، نیز انہیں قبرستان میں ہی دفن کرنا چاہیے۔
گناہ دیکھ کر خاموش رہنا
سوال: میں کالج میں زیر تعلیم ہوں، بعض دفعہ میری ہم جماعت کسی دوسری لڑکی کی غیبت میں مصروف ہوتی ہیں، میں مارے شرم کے ان کو کچھ نہیں کہہ سکتی اور ان سے علیحدہ بھی نہیں ہو سکتی، جبکہ میری خواہش ہوتی ہے کہ انہیں ایسے کام سے باز رہنا چاہیے، ایسے حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: اللہ کی نافرمانی اور گناہ کا کام دیکھ کر خاموش رہنے کی بجائے معصیت اور نافرمانی کرنے والوں کو اس کے انجام بد سے آگاہ کرنا چاہیے اور انہیں سمجھانا چاہیے اگر وہ باز آجائیں، تو ٹھیک، بصورت دیگر انہیں چھوڑ کر ان سے الگ ہو جانا چاہیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْۤ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ﴾[3]
’’اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں کجی اور عیب جوئی کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہوجائیں تا آنکہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں۔‘‘
ایک دوسری آیت میں ہے:
﴿اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِهَا وَ يُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖۤ١ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ﴾[4]
’’جب تم کسی اہل مجلس کو دیکھو جو اللہ کی آیات کا کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہیں تو اس مجلس میں مت بیٹھو تاآنکہ وہ اس کے علاوہ دوسری باتیں نہ کرنے لگیں بصورت دیگر تم انہی جیسے ہو گے۔‘‘
آج کل اپر طبقہ، فیشن ایبل اور مغرب زدہ خواتین میں بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے، شادی بیاہ اور سالگرہ کے موقع پر بھی اس
|